وہاں چلیں جہاں شام ڈوب جاتی ہے
جہاں خواب جاگتے رہتے ہیں
جہاں حسرتیں بے اماں نہیں ہوتی
وہ جہاں نالوں کی فغاں بے زباں نہیں ہوتی
جہاں ہر اک زاویہ نئی سوچ کا مظہر ہے
جہاں خوشیوں کا دوام اب بھی قائم ہے
جہاں درد کا رشتہ اب بھی دائم ہے
جہاں پھول بھی ، مرغزار بھی جلتے ہیں
جہاں منزل انہیں ملتی ہے
جو بس اک گام چلتے ہیں
جہاں سدا الفتوں کا سویرا رہتا ہے
جہاں کا محبتوں کا نشہ چڑھا رہتا ہے
اے صبح بے نور
تو بھی جا کے دیکھ اس دیس تک
جہاں فقط ظلمتوں کو زوال ہے
جہاں خواب صدیوں کی پوشاک اوڑھے
سدا ہنستے رہتے ہیں
جہاں فقط دکھوں کو جبر کو ظلم کو زوال ہے