چاند سے روز پوچھتا تھا میں
کس لئے اس قدر اُداس ہو تم؟
کس کی چاہت میں سال بھر پھیرے
سال بھر گھٹتے بڑھتے رہتے ہو تم
اُجڑے اُجڑے سے بکھرے بکھرے ہو
کیا ستارے تمہیں جگاتے ہیں؟
میرے ایسے کئی سوالوں پر
چاند نظریں چرا کے چھپ جاتا
اُوٹ میں بادلوں کی چھپ جاتا
آج مجھ پر جدائی آئی ہے
چاند سرگوشیوں میں پوچھتا ہے
ساتھی، اِتنے اُداس کیوں کر ہو؟
کس لئے تیری پلکیں بھیگی ہیں؟
کس لئے نیند تم سے روٹھی ہے؟
چاند سے ایسی گفتگو سن کر
آج میں نے نظر چرائی ہے
اپنے ہاتھوں میں منہ چھپایا ہے
اور رویا ہوں سسکیاں لے کر