اب تو لوٹ آؤ دوست
اے دوست میں اب بھی تیرا منتظر ہوں
اپنی خاکِ رہ سے پوچھ میں اسے ذرا ذرا ازبر ہوں
کتنی راتیں بیت گئی
تجھے سوچتے سوچتے
ترے خواب دیکھتے دیکھتے
تجھے ڈھونڈ تے ڈھونڈتے
تو نے پوچھا ہے فلک پہ چمکتے تاروں سے
کس شام مری پلکوں پہ ستارے نہیں سجے
چاند سے پوچھنا،
کہ اس کے ساتھ جاگ جاگ کے
ویراں ہوچکا میں
میرے جذبات دھول ہو چکے
میرے خواب اجڑ چکے
کتنی شامیں میں نے ہاتھ کی انگلی سے
تیرا نام آسماں پہ لکھنے گزاری ہیں
ان ہواؤں سے پوچھنا
کس حوصلے سے میں نے
اس آنکھوں کے سمندر کو تھام رکھا ہے
کتنے موسم مرے آنگن میں اکیلے اترے
اور تیرا پوچھتے پوچھتے گزر گئے
کتنے جگنو تجھے دیکھنے کو میری چھت پہ ٹھہرے ہوئے ہیں
کتنی تتلیاں تیری رہ میں
اپنے پروں کی چمک سجائے کھڑی ہیں
اور میں !
کتنے دنوں سے اکیلا اور اداس ہوں
اب تو لوٹ آؤ دوست
میں اب بھی تیرا منتظر ہوں