ہجر کی نظم تمام رات بے تاب رہے
میری آرزو کے مرغزار
میری سوچ کے دیے
میرے جگر سے اٹھتی درد کی ٹیسیں
میرے دل میں اترتے یاد کے شیشے
میری آنکھوں میں سرایت کرتی
وہ دوریوں کی ہوا
میری گردن کو جکڑتے ہجر کے پنجے
میری گلیوں سے گزرتی
سیاہ رات کی چیخیں
میرے گھر میں اترتی
وہ صبح کی پلکیں
اے شام بیتاب
میرا درد سُن
مجھے گلے سے لگا ،
آ میری بن