پوچھا کہ اک بچھڑے تارے نے
اے انسان تو ہی بتا
کہ انسان کب روتا ہے؟
میں اک لمحے کو کھو سی گئی
اور وجوہات کو سوچتی رہی
کوئی اپنا بچھڑ جائے تب؟
کوئی اپنا دکھ دے جائے تب؟
کوئی اپنا نہ اپنائے تب؟
کوئی اپنا بہت یاد آئے تب؟
کوئی اپنا چھوڑ کے جائے تب؟
کوئی اپنا بہت ستائے تب؟
کوئی اپنا کہیں کھو جائے تب؟
کوئی اپنا جاں چھڑائے تب؟
کوئی اپنا کسی کا ہو جائے تب؟
کوئی اپنا دکھ اٹھائے تب؟
کوئی اپنا شدت سے چاہے تب؟
کوئی اپنا دل میں بس جائے تب؟
کوئی اپنا نیند چرائے تب؟
کوئی اپنا دل دکھائے تب؟
کوئی اپنا کہیں مل جائے تب؟
کوئی اپنا آنکھ چرائے تب؟
کوئی اپنا نین ملاتے تب؟
یا کوئی اپنا کہیں مر جائے تب؟
شاید یہی تو وہ باتیں ہیں
جو بیتے دنوں کی یاد میں
آنکھیں نم کر جاتی ہیں
پلکیں بھیگی رہتی ہیں
دل خون کے آنسو روتا ہے
نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے
نہ راتوں کو وہ سوتا ہے
پھر بھی تم یہ پوچھتے ہو
کہ انسان کب روتا ہے؟
”ہاں انسان تبھی تو روتا ہے“