زندگی کی راہوں میں
زندگی بھٹکتی ہے
بچھڑتے رستوں میں کہاں
منزلیں پنپتی ہیں
اک آغوش ہے جیون
اس آغوش کا بچہ
درد کی حرارت سے
اس پگھلتا ہے
بھاپ بن کر اڑاتا ہے
خود کو جوڑنے کے لیے
سرحدوں کو چھو کر وہ
اس طرح پھر لوٹے گا
دنیا کے فسانوں میں
پھر سے کھو جائے گا
اک آغوش ہے جیون
اس آغوش کا بچہ
اک تلاش کا ساتھی
روتے روتے ہنس دے گا
اور خود سے پوچھے گا
زندگی کی حقیقت کو
کون جان پایا ہے
جس نے اس کو کھوجا ہے
اس نے خود کو کھویا ہے
دل دکھتا ہے
آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر ، بے درد رتوں کی راکھ ملے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
اور خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب
چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں
جب آنکھ بجھے
تم یاد آؤ
دل دکھتا ہے
دل دکھتا ہے