بھلانا تم کو نہیں ہے ممکن
zتمہیں مگر یہ خبر کہاں ہے
کہ چاہتوں کے یہ بیل بوٹے
وبال ہستی کی مثل جاناں
دل و نظر کا قرار بن کر
کہ رت جگوں کا خمار بن کر
فشارِ خوں میں اتر جو جائیں
تو پھر کبھی بھی یہ خواب سارے
یہ قربتوں کے عذاب سارے
حصارِ جاں سے نہیں نکلتے
وفا کی راہوں پہ چلنے والے
وفا کی راہیں نہیں بدلتے
جفا سفر پہ نہیں نکلتے
انا سفر پہ نہیں نکلتے
تمہیں مگر یہ خبر کہاں ہے
کہ تم تو جاناں اسی سفر میں
حصارِ جاں سے نکل چکے ہو
وفا کی راہیں بدل چکے ہو
حیات کو اک سزا بنا کر
جفا سفر پہ نکل چکے ہو
انا سفر پہ نکل چکے ہو
مگر مجھے کچھ گلہ نہیں ہے
مری ہے تم سے یہی گذارش
جو تم سے دل کو لگا چکے ہوں
جو خونِ دل کو جلا چکے ہوں
حسین آنکھوں میں بسنے والے
جو خواب سارے لٹا چکے ہوں
انہی سے جلنا نہیں ہے اچھا
وفا کی راہوں پہ چلنے والے
جفا پہ چلنا نہیں ہے اچھا
انا میں ڈھلنا نہیں ہے اچھا
اگر حقیقت یہ جان جاؤ
کبھی بھی مجھ کو نہ تم ستاؤ
: شاعر
فرمان علی ارمان