Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, December 22, 2010

آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

سمندر میں اُترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تری یادوں کی خوشبو کھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
گلے جب اُس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

نہ جانے ہو گیا ہوں اِس قدر حساس میں کب سے
کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں


میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہر اِک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

تُو رحیم ہے تُو غفور ہے



تری آزمائشوں سے ہُوں بے خبر
یہ میری نظر کا قصور ہے
تری راہ میں قدم قدم
کہیں عرش ہے کہیں طُور ہے
یہ بجا ہے مالکِ دو جہاں
میری بندگی میں فتور ہے
یہ خطا ہے میری خطا مگر
تیرا نام بھی تو غفُور ہے
یہ بتا! میں تُجھ سے ملوں کہاں
مجھے تُجھ سے ملنا ضرور ہے
کہیں دل کی شرط نہ ڈالنا
ابھی دل گناہوں سے چُور ہے
تُو بخش دے مرے سب گناہ
تُو رحیم ہے تُو غفور ہے

قبل اس کے۔ ۔ ۔

قبل اس کے۔ ۔ ۔

دسمبر کی ہواؤں سے رگوں میں خون کی گردش ٹھہر جائے

جسم بے جان ہو جائےتمہاری منتظر پلکیں جھپک جائیں

بسا جو خواب آنکھوں میں ہے وہ ارمان ہوجائے

برسوں کی ریاضت سےجو دل کا گھر بنا ہے پھر سے وہ مکان ہو جائے

تمہارے نام کی تسبیح بھلادیں دھڑکنیں میری

یہ دل نادان ہو جائےتیری چاہت کی خوشبو سے

بسا آنگن جو دل کا ہےوہ پھر ویران ہوجائے

قریب المرگ ہونے کا کوئی سامان ہوجائے

قبل اس کے۔ ۔ ۔

دسمبر کی یہ ننھی دھوپ کی کرنیں

شراروں کی طرح بن کر، میرا دامن جلا ڈالیں

بہت ممکن ہےپھر دل بھی برف کی مانند پگھل جائے

ممکن پھر بھی یہ ہے جاناں۔ ۔ ۔

کہ تیری یاد بھی کہیں آہ بن کر نکل جائے

موسمِ دل بدل جائے ۔ ۔ ۔

یا پہلے کی طرح اب پھر دسمبر ہی نہ ڈھل جائے!

قبل اس کے۔ ۔ ۔

دسمبر اور ہم تیری راہوں میں بیٹھے

تم کو یہ آواز دیتے ہیں

کہ تم ملنے چلے آؤ

دسمبر میں چلے آؤ

روح کی تنہائی

اس بھرے شہر میں میری طرح رسوا ہوتا
تجھ پہ حادثۂ شوق جو گزرا ہوتا
تو نے ہر چند زباں پر تو بٹھائے پہرے
بات جب تھی کہ مری سوچ کو بدلا ہوتا
رکھ لیا غم بھی ترا بار امانت کی طرح
کون اس شہر کے بازار میں رسوا ہوتا
جب بھی برسا ہے ترے شہر کی جانب برسا
کوئی بادل تو سر دشت بھی برسا ہوتا
آئینہ خانے میں اک عمر رہے محو خیال
اپنے اندر سے نکل کر کبھی دیکھا ہوتا
میری کشتی کو بھلا موج ڈبو سکتی تھی
میں اگر خود نہ شریک کف دریا ہوتا
تجھ پہ کھل جاتی مری روح کی تنہائی بھی
میری آنکھوں میں کبھی جھانک کے دیکھا ہوتا

خوشبو تِری گواہ


قاصد جو تھا بہار کا، نا معتبر ہُوا
گلشن میں بندوبست برنگِ شِگر ہُوا

خواہش جو شاخِ حرف پہ چٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا

اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات، مرا ہم سفر ہوا

آواز کیا کہ شکل بھی پہچانتا نہیں
غافل ہمارے حال سے وہ اِس قدر ہوا

عُمرِ رواں کے رخت میں ایسا نہیں کوئی
جو پَل تُمہاری یاد سے باہر، بسر ہُوا

خوشبو تھی جو خیال میں، رزقِ اَلم ہُوئی
جو رنگِ اعتبار تھا، گردِ سفر ہُوا

دل کی گلی میں حدّ نظر تک تھی روشنی
کرنیں سفیر، چاند ترا نامہ بر ہُوا

تارے مِرے وکیل تھے، خوشبو تِری گواہ
کل شب عجب معاملہ، پیشِ نظر ہُوا

امجد اگر وہ دورِ جنوں جا چُکا، تو پھر
لہجے میں کیوں یہ فرق کسی نام پر ہُوا

ہجر کے موسم


کیا کیا نہ خواب ہجر کے موسم میں کھو گئے
ہم جاگتے رہے تھے مگر بخت سو گئے
جیسے بدن سے قوسِ قزح پھوٹنے لگی
بارش کے ہاتھ پُھول کے سب زخم دھو گئے
آنکھوں میں دھیرے دھیرے اُتر کے پُرانے غم
پلکوں میں ننھّے ننھّے ستارے پرو گئے
وہ بچپنے کی نیند تو اب خواب ہو گئی
کیا عُمر تھی کہ رات ہُوئی اور سو گئے

مرے خواب


مرے خواب جو تھے بکھر گئے کچھ اِدھر گئے کچھ اُدھرر گئے
وہ دکھا کے ایک جھلک مجھے مرے سامنے سے گذر گئے

نہ تھا وصل میرے نصیب میں مجھے دے رہے تھے فریب وہ
میں تھا منتظر کہ وہ آئیں گے وہ تو وعدہ کر کے مُکر گئے

جو بوقت عیش تھے آشنا وہ چلے گئے مجہے چھوڑ کر
سرِ راہ جب ہوا سامنا تو نظر بچا کے گذر گئے

تھا ستارہ میرا عروج پر تھے حریف خوف زدہ مرے
مگر آیا مجھ پہ زوال جب تو نصیب اُن کے سنور گئے

جسے دیکھئے وہ ھے غمزدہ میں ہوں برقی شاعرِ بے نوا
جو تھے میرے ہمدم و ہمنوا وہ نہ جانے آج کدھر گئے

ٹھان

جو تم نے ٹھان ہي لي ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پيارے
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نکلو گے
ستارے جن کي آنکھوں نے ہميں اک ساتھ ديکھا تھا
گواہي دينے آئيں گے
پرانےکاغذوں کي بالکوني سے بہت لفظ جھانکيں گے
تمہيں واپس بلائيں گے
کئي وعدے فسادي قرض خواہوں کي طرح رستے ميں روکيں گے
تمھيں دامن سے پکڑیں گے
تمہاري جان کھائيں گے
چھپا کر کس طرح چہرہ
بھري محفل سے نکلو گے
ذرا پھر سوچ لو جاناں
نکل تو جائو گے شايد
مگر مشکل سے نکلو گے


کتنا مشکل ہے زندگی کرنا

کتنا مشکل ہے زندگی کرنا
جس طرح تجھ سے دوستی کرنا

اِک کہانی نہ اور بن جائے
تم بات سرسری کرنا

ڈوب جاؤں نہ میں اندھیروں میں
اپنی آنکھوں کی روشنی کرنا

کس قدر دل نشیں لگتا ہے
بے ارادہ تجھے دُکھی کرنا

خون ِ دل صرف کرنا پڑتا ہے
دیکھنا!تم نہ شاعری کرنا

کتنا دُشوار ہے انا کے لیئے
سارے ماحول کی نفی کرنا


احتیاط


بجا سہی یہ حیا اور یہ احتیاط مگر
کبھی کبھی تو محبت میں حوصلہ کیا کر

گہری تھی


بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
کہا، یُوں تو سبھی کچھ ٹھیک تھا پر مات گہری تھی

سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟
جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی

سُنو، پیتم نے ہولے سے کہا تھا کیا، بتاؤ گے؟
جواب آیا، کہا تو تھا مگر وہ بات گہری تھی

دیا دل کا سمندر اُس نے تُم نے کیا کیا اس کا؟
ہمیں بس ڈوب جانا تھا کہ وہ سوغات گہری تھی

وفا کا دَشت کیسا تھا، بتاؤ تُم پہ کیا بِیتی ؟
بھٹک جانا ہی تھا ہم کو ، وہاں پر رات گہری تھی

تُم اس کے ذکر پر کیوں ڈوب جاتے ہو خیالوں میں؟
رفاقت اور عداوت اپنی اس کے ساتھ گہری تھی

نظر آیا تمہیں اُس اجنبی میں کیا بتاؤ گے؟
سُنو، قاتل نگاہوں کی وہ ظالم گھات گہری تھی

زینتِ پہلو


دل وہ کمبخت کے دھڑ کے ہی چلے جاتا ہے
یہ الگ بات کے تو زینتِ پہلو بھی نہیں

ماری جاؤں گی


کہاں کسی کی قیامت میں ماری جاؤں گی
میں کم شناس مروت ميں ماری جاؤں گی


میں ماری جاؤں گی پہلے کسی فسانے میں
پھر اس کے بعد حقیقت میں ماری جاؤں گی


میرا یہ خون میرے دشمنوں کے سر ہوگا
میں دوستوں کی حراست ميں ماری جاؤں گی


فراغ میرے لیے موت کی علامت ہے
میں اپنی پہلی فراغت میں ماری جاؤں گی


نہیں مروں گی کسی جنگ میں یہ سوچ لیا
میں اب کی بار محبت میں ماری جاؤں گی

خلش

سمے سمے کی خلش میں تیرا ملال رہے
جُدائیوں میں بھی یوں عالم وصال رہے


اَنا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے


رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے دیوانگی بحال رہے


حسین راتیں بھی مہکیں تمہاری یادوں سے
کڑے دنوں میں بھی پَل پَل تیرا خیال رہے


تُو ایک بار ذرا کشتیاں جلا تو سہی
ہے کیا مجال کہ اِک لمحہ بھی زوال رہے

جاناںجاناں

میں یہاں اور تو وہاں جاناں
درمیاں سات آسمان جاناں
ہم نہیں ہوں گے اور دنیا کو
تو سنائے گا داستاں جاناں
دیکھنے میں تو کچھ نہیں لیکن
اک زمانہ ہے درمیاں جاناں
رو رہے پرند شاخوں پر
جل گیا ہو گا آشیاں جاناں
اور اک محبت میرا اثاثہ ہے
اور اک ہجر بہ کراں جاناں
یہ تو سوچا نہ تھا کبھی آنسو
ایسے جائیں گے رائیگاں جاناں
میں تیرے بارے میں کچھ غلط کہہ دوں
کٹ نہ جائے میری زباں جاناں

پیار


یہ پیار بھی عجب شے ہے
اضطرار میں مضمر
انتشار سے آگے
اختیار سے باہر

اور مزے میں ہم ہیں


کسی نے مجھ سے پوچھ لیا

کیسے ہو؟
ہم نے ہنس کے کہا!

زندگی میں غم ہے
غم میں درد ہے،

درد میں مزا ہے
اور مزے میں ہم ہیں

محبّت کا دستور

دیکھ محبّت کا دستور
تو مجھ سے میں تجھ سے دُور
تنہا تنہا پھرتے ہیں
دل ویراں آنکھیں بے نور
دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لئے جاتا ہے دُور
ہم اپنا غم بھول گئے
آج کسے دیکھا مجبور
دل کی دھڑکن کہتی ہے
آج کوئی آئے گا ضرور
کوشش لازم ہے پیارے
آگے جو اس کو منظور
سورج ڈوب چلا ناصر
اور ابھی منزل ہے دور

مجھ کو

جلا کے تُو بھی اگر آسرا نہ دے مجھ کو
یہ خوف ہے کہ ہَوا پھر بجھا نہ دے مجھ کو


میں اِس خیال سے مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہُوں اُسے
بچھڑ کے بھی وہ کہیں پھر صدا نہ دے مجھ کو


فضائے دشت ‘اگر اب میں گھر کو یاد کروں
وہ خاک اُڑے کہ ہَوا راستا نہ دے مجھ کو


اِسی خیال سے شب بھر مَیں سو نہیں سکتا
کہ خوفِ خوابِ گزشتہ جگا نہ دے مجھ کو


تیرے بغیر بھی تیری طرح میں زندہ رہوں؟
یہ حوصلہ بھی دُعا کر خدا نہ دے مجھ کو


اُبھر رہی ہے میرے دِل میں پستیوں کے کششِ
وہ چاند پھر سے زمیں پر گرا نہ دے مجھ کو


میں اس لیے بھی اُسے خود مناؤں گا محسنؔ
کہ مجھ سے روٹھنے والا بُھلا نہ دے مجھ کو

سلوک


سلوک نشتروں جیسا نہ کیجئے ہم سے
ہمـیــشہ آپ کــو ہم نـے گـلاب لکــھا ہــے

تم یاد آئے

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پا زیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

جدائی

رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا
جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی؟
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست
اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا

کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی
ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا

خالد میں بات بات پہ کہتا تھا جسکو جان
وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا


رسوائی

کب میرا نشیمن اہلِ چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی اللہ تم اٹھ کے آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

بے وجہ نہ جانے کیوں ضد ہے ان کو شبِ فرقت والوں سے
وہ رات بڑھا دینے کے لیے گیسو کو سنوارا کرتے ہیں

کچھ حسن و عشق میں فرق نہیں، ہے بھی تو فقط رسوائی کا
تم ہو کہ گوارا کر نہ سکے، ہم ہیں کہ گوارا کرتے ہیں


میری آنکھوں میں رہتا ہے

کوئی دُھندلہ سا ایک چہرہ میری آنکھوں میں رہتا ہے
کوئی بھٹکتا سا ایک جُگنو میرے خوابوں میں رہتا ہے
ایک مانُوس سی آواز مجھے سونے نہیں دیتی ۔۔۔
کوئی اُلجھا سا ایک جُملہ میری یادوں میں رہتا ہے
مجھے خود پر نہیں قابو ، نہ میں کچھ کہہ سکتا ہوں
اثر یہ کس کے لفظوں کا میری باتوں میں رہتا ہے
دسمبر کی خُنک راتیں مجھے بہت بے چین رکھتی ہیں
لمس ایک ہاتھ کا اب تک میری سوچوں میں رہتا ہے
ہے دل بھی مضطرب ، احساس بھی ، سوچوں کی اُلجھن بھی
یہ کس کی آنکھ کا آنسو میری آنکھوں میں رہتا ہے

چلو اک نظم لکھتے ہیں


چلو اک نظم لکھتے ہیں
کسی کے نام کرتے ہیں

مگر یہ سوچنا ہے اب
کہ اس میں ذکر کس کا ہو
کہ اس میں بات کس کی ہو
کہ اس میں ذات کس کی ہو

اور یہ بھی فرض کرتے ہیں
کہ جس پر نظم لکھتے ہیں
ہمیں اس سے محبت ہے
ہمارے سارے جذبوں کو
بس اسکی ہی ضرورت ہے

چلو اک کام کرتے ہیں
کہ ہم جو نظم لکھتے ہیں
تمہارے نام کرتے ہیں

تمہی عنوان ہو اس کا
تمہارا ذکر ہے اس میں
تمہاری بات ہے اس میں
تمہاری ذات ہے اس میں

مجھے تم یاد آتے ہو


کسی سر سبز وادی میں
کسی خوش رنگ جگنو کو
کبھی اُڑتے ہوئے دیکھوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
خوابوں میں، سوالوں میں
محبّت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتی ہوں
تمہیں واپس بلاتی ہوں
یوں خود کو آزماتی ہوں
کوئی جب نظم لکھتی ہوں
اُسے عنوان دیتی ہوں
“مجھے تم یاد آتے ہو“
کبھی باہر نکلتی ہوں
کسی رستے پہ چلتی ہوں
کہیں دو دوستوں کو کھلکھلاتے
مسکراتے دیکھہ لیتی ہوں
کسی کو گنگناتے دیکھہ لیتی ہوں
تو پھر۔۔۔
میری رفاقت کے اوّل و آخر
“مجھے تم یاد آتے ہو“
دسمبر میں جو موسم کا مزہ لینے کو جی چاہے
کوئی پیاری سہیلی فون پر بولے
بڑا ہی مست موسم ہے
چلو باہر نکلتے ہیں
چلو بوندوں سے کھیلیں گے
چلو بارش میں بھیگیں گے
تو اُس لمحے
تمہاری یاد ہولے سے
کوئی سرگوشی کرتی ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں آنکھوں کو جھکاتی ہوں
بظاہر مسکراتی ہوں
فقط اتنا ہی کہتی ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
مجھے تم یاد آتے ہو

تحفہ

تم رکھ نہ سکو گے، میرا تحفہ سمبھال کر
ورنہ دے دوں تجھےجسم سے روح نکال کر

پیار کا پہلا خط

پیار کا پہلا خط لکھنے میں وقت تو لگتا ہے
نئے پرندوں کو اُڑنے میں وقت تو لگتا ہے

جسم کی بات نہیں ان کی روح تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھلنے میں وقت تو لگتا ہے

علاج زخم دل ہم نے ڈھونڈ لیا ہے لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

یک ساتھ


وقت کے راستے سے ہم تم کو
ایک ہی ساتھ تو گذرنا تھا
ہم تو جی بھی نہیں سکے ایک ساتھ
ہم کو تو ایک ساتھ مرنا تھا

دعا


وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ھے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے پر التجا نہ کرے

کیا خدا بھی اُس کا تھا


منزلیں بھی اُس کی تھیں
راستہ بھی اُس کا تھا
ایک میں اکیلا تھا
قافلہ بھی اُس کا تھا
ساتھ ساتھ چلنے کی سوچ بھی اُس کی تھی
پھر راستہ بدلنے کا فیصلہ بھی اُس کا تھا
آج کیوں اکیلا ہوں ۔ ؟
دل سوال کرتا ہے ۔ !
لوگ تو اُس کے تھے
کیا خدا بھی اُس کا تھا ۔۔۔ ؟

ہمسفر اچھا لگا


گفتگو اچھی لگی ذوقِ نظر اچھا لگا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا

زندگی کی بےسرو سامانیوں کے باوجود
آج تو آیا تو مجھ کو اپنا گھر اچھا لگا

سوچ کر میں نے چُنی آخری آرام گاہ
میں تھا مٹی اور مجھے مٹی کا گھر اچھا لگا

منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں
ایک سفر اچھا لگا ایک ہمسفر اچھا لگا

وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری


اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری

وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری


آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

شاعر : احمد فراز

چاند خاموش تھا

اک کہانی سبھی نے سنائی مگر ، چاند خاموش تھا
اس کی آواز کا منتظر تھا نگر ، چاند خاموش تھا
کون تھا جس کی آہوں کے غم میں ہوا سرد تھی شہر کی
کس کی ویران آنکھوں کا لے کے اثر، چاند خاموش تھا
وہ جو سہتا رہا رت جگوں کی سزا چاند کی چاہ میں
مرگیا تو نوحہ کناں تھے شجر، چاند خاموش تھا
اس سے مل کے میں یوں خامشی اور آواز میں قید تھا
اک صدا تو مرے ساتھ تھی ہم سفر ، چاند خاموش تھا
کل کہیں پھر خدا کی زمیں پر کوئی سانحہ ہوگیا
میں نے کل رات جب بھی اٹھائی نظر ، چاند خاموش تھا

شاعر : فرحت عباس شاہ

نایاب ہیں ہم

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم ۔ اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا خاموش کھڑا ہوں ساحل پر
دریائے محبت کہتا ہے آ کچھ بھی نہیں پایاب ہیں ہم
اے درد بتا کچھ تو ہی پتہ ۔ اب تک یہ معمہ حل نہ ہوا
ہم میں ہے دل بے تاب نہاں یا آپ دل بےتاب ہیں ہم
لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو ایک
اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
مرغان قفس کو پھولوں نے اے شاد یہ کہلا بھیجا ہے
آجاو! جو تم کو آنا ہو ایسے میں ابھی شاداب ہیں ہم

ملال

سمے سمے کی خلش میں تیرا ملال رہے
جُدائیوں میں بھی یوں عالم وصال رہے
اَنا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے
رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے دیوانگی بحال رہے
حسین راتیں بھی مہکیں تمہاری یادوں سے
کڑے دنوں میں بھی پَل پَل تیرا خیال رہے
تُو ایک بار ذرا کشتیاں جلا تو سہی
ہے کیا مجال کہ اِک لمحہ بھی زوال رہے

شاعر: فرحت عباس شاہ

ترا نام


بھولے سے لکھ دیا تھا ترا نام جس جگہ
اب تک وہاں اُترتے ہیں خوشبو کے قافلے


نشاطِ روح

خودداریوں کےخون کو ارزاں نہ کرسکے
ہم اپنے جوہروں کو نمایاں نہ کر سکے
ہو کر خرابِ مے ترے غم تو بھلا دیئے
لیکن غمِ حیات کا درماں نہ کر سکے
ٹوٹا طلسمِ عہد محبّت کچھ اس طرح
پھر آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے
ہر شے قریب آکے کشش اپنی کھو گئی
وہ بھی علاجِ شوق گریزاں نہ کرسکے
کس درجہ دل شکن تھے محبت کے حادثے
ہم زندگی میں پھر کوئی ارماں نہ کرسکے
مایوسیوں نے چھین لیے دل کے ولولے
وہ بھی نشاطِ روح کا ساماں نہ کر سکے


محبّت کا استعارہ


گلاب ہاتھ میں ہو ، آنکھ میں ستارہ ہو

کوئی وجود محبّت کا استعارہ ہو

میں گہرے پانی کی اس رو کے ساتھ بہتی رہوں

جزیرہ ہو کہ مقابل کوئی کنارہ ہو

کبھی کبھار اُسے دیکھ لیں ،کہیں مل لیں

یہ کب کہا تھا کہ وہ خوش بدن ہمارا ہو

قصور ہو تو ہمارے حساب میں لکھ جائے

محبتوں میں جو احسان ہو ، تمھارا ہو

یہ اتنی رات گئے کون دستکیں دے گا

کہیں ہوا کا ہی اُس نے نہ رُوپ دھارا ہو

اُفق تو کیا ہے،درِ کہکشاں بھی چُھو آئیں

مُسافروں کو اگر چاند کا اشارہ ہو

میں اپنے حصے کے سُکھ جس کے نام کر ڈالوں

کوئی تو ہو جو مجھے اس طرح کا پیارا ہو

اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے

میں چاہے نظم کا ٹکڑا، وہ نثر پارہ ہو

پروین شاکر

ایسا کہاں سے لاؤں کہ‘ تجھ سا کہیں جسے


آئینہ کیوں نہ دوں کہ‘ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ‘ تجھ سا کہیں جسے

حسرت نے لا رکھا‘ تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہ‘ سویدا کہیں جسے

پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا!
افسونِ انتظار‘ تمنا کہیں جسے

سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے‘ ڈالیے
وہ ایک مشتِ خاک کہ‘ صحرا کہیں جسے

ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسخیتہ‘ دریا کہیں جسے

در کار ہے‘ شگفتنِ گلہائے عیش کو
صبحِ بہار‘ پنبۂ مینا کہیں جسے

غالبؔ! برا نہ مان‘ جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

Tuesday, December 21, 2010

دسمبر


ہمارے حال پہ رویا دسمبر
وہ دیکھو ٹوٹ کر برسا دسمبر

گزر جاتا ہے سارا سال یوں تو
مگر کٹتا نہیں تنہا دسمبر

بھلا بارش سے کیا سیراب ہوگا؟
تمہارے وصل کا پیاسا دسمبر

وہ کب بچھڑا؟ نہیں اب یاد لیکن
بس اتنا علم ہے کہ تھا دسمبر

یوں پلکیں بھیگتی رہتی ہیں ایسے
میری آنکھوں میں جیسے آٹھہرا دسمبر

جمع پونجی یہی ہے عمر بھر کی
میری تنہائی اور میرا دسمبر

عشق کو کس نے سمجھا ہے


عشق کی باتیں سب کرتے ہیں ، عشق کو کس نے سمجھا ہے
پیاس بڑھے تو دریا ہے یہ ، پیاس گھٹے تو صحرا ہے

ظاہر و باطن


احباب کا شکوہ کیا کیجیئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے

جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں


یاد میں تیری، جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے، کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں

اک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں

او وفا کہتے ہوئے تجھ کو تو شرماتا ہوں میں
بے وفا کہتے ہوئے تجھ کو تو شرماتا ہوں میں

آرزؤں کا شباب اور مرگ حسرت ہائے ہائے
جب بہار آئی گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں

حشر میری شعر گوئی ہے فقط فریاد شوق
اپنا غم دل کی زباں میں، دل کو سمجھاتا ہوں میں

محبت ہمسفر میری


کٹھن ہے زندگی کتنی
سفر دشوار کتنا ہے
کبھی پاؤں نہیں چلتے
کبھی رستہ نہیں ملتا
ہمارا ساتھ دے پائے
کوئی ایسا نہیں ملتا
فقط ایسے گزاروں تو
یہ روز و شب نہیں کٹتے
یہ کٹتے تھے کبھی پہلے
مگر ہاں اب نہیں کٹتے
مجھے پھر بھی میرے مالک
کوئی شکوہ نہیں تجھ سے
میں جاں پر کھیل سکتی ہوں
میں ہر دکھ جھیل سکتی ہوں
اگر تو آج ہی کر دے
محبت ہمسفر میری

یاد



رات اِک لڑ کھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگِ سرخ کی سِل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوچھاڑ دل کو چیر گئی

اتنے بگڑے ہیں وہ مجھ سے


اتنے بگڑے ہیں وہ مجھ سے کہ اگر نام بھی ان کا
لکھتا کاغذ پہ ہوں تو حرف بگڑ جاتے ہیں

ترانہ درد


سمجتے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانہ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا

آج بھی شام اداس رہی


آج بھی شام اداس رہی
آج بھی تپتی دھوپ کا صحرا
ترے نرم لبوں کی شبنم
سائے سے محروم رہا
آج بھی پتھر ہجر کا لمحہ صدیوں سے بے خواب رتوں کی
آنکھوں کا مفہوم رہا
آج بھی اپنے وصل کا تارا
راکھہ اڑاتی شوخ شفق کی منزل سے معدوم رہا
آج بھی شہر میں پاگل دل کو
تری دید کی آس رہی
مدت سے گم صم تنہائی، آج بھی میرے پاس رہی
آج بھی شام اداس رہی

تہمت

تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
جس ليے آئے تھے سو ہم وہ کر چلے
زندگي ہے يا کوئي طوفاں ہے
ہم تو اس جينے کے ہاتھوں مر چلے
کيا ہميں کام ان گلوں سے اے صبا
ايک دم آئے ادھر اُدھر چلے
دوستوں ديکھا تماشا ياں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس موت جي جلا تب جانئيے
جب کوئي افسوں ترا اس پر چلے

کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا

یا رب غمِ ہجراں میں‌ اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا
ناکامِ تمنا دل اس سوچ میں‌رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سناتم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا


خیالات

وقت کی آنچ پر پتھر بھی پگھل جاتے ہیں
قہقہے ٹوٹ کر اشکوں میں بکھر جاتے ہیں
کون نبھاتا ہے کسی کا ساتھ عمر بھر
وقت کے ساتھ خیالات بھی بدل جاتے ہیں

کس کے نام لکھوں

میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو
وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھُرمَٹ جو ہَوا میں جھُولتے تھے
وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں


چلو وعدہ رہا

اب نہیں نیند میں آئیں گے، چلو وعدہ رہا
آپ کا ساتھ نبھائیں گے، چلو وعدہ رہا

عہد یہ ترک محبت کا میری جان نہیں توڑیں گے
آپ کو ہم نا بھلائیں گے، چلو وعدہ رہا

شب کی تنہائی میں تم یاد اگر آۓ بھی
ایک بھی آنسو نا بہائیں گے، چلو وعدہ رہا

روٹھ جانے پہ نا جوڑیں گے کبھی اپنے ہاتھ
تجھکو ہرگز نا منائیں گے، چلو وعدہ رہا

اپنے اجڑے ہوۓ اس دل کے نہا خانوں میں
تیری صورت نا سجائیں گے، چلو وعدہ رہا

لے تیرے حکم پہ ہم شہر تیرا چھوڑ چلے
اب نہیں لوٹ کے آئیں گے، چلو وعدہ رہا

اب محبت کی نا امید رکھیں گے تجھ سے
دل میں ارماں نا بسائیں گے، چلو وعدہ رہا


مثال


کھو گئی ہوں کہیں محبت میں
بازیابی محال ہے میری
کوئی دیوانگی نہیں ہے یہ
حالت ِ اعتدال ہے میری
لوگ صدموں سے مر نہیں جاتے
سامنے کی مثال ہے میری

تیری یاد


ذہن کے خیالوں میں
روح کے اُجالوں میں
زندگی کی جھیلوں میں
ذات کی فصیلوں میں
رت جگوں کے دامن میں
خواہشوں کے آنگن میں
دل کے خشک صحرا میں
چشمِ تر کے دریا میں
درد کے جہاں میں بھی
اشکِ بے زباں میں ‌بھی
اور کچھہ نہیں رہتا
تیری یاد رہتی ہے

وہ سال دوسرا تھا يہ سال دوسرا ہے


وہ سال دوسرا تھا يہ سال دوسرا ہے
جب تم سے اتفاقاً ميری نظر ملی تھی
کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوری تھی
پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروری ميں
جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگی ميں
کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر
اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا
دنيا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
ليکن مئی جو آئی جلنے لگا زمانہ
ہر شخص کی زباں پہ تھا بس يہی فسانہ
دنيا کے ڈر سے تم نے بدلی تھيں جب نگاہيں
تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں
ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہی تھی
بس آنسوؤں کي بارش دن رات ہو رہی تھی
اس ميں نہيں کوئی شک وہ ماہ تھا ستمبر
بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر
تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا
دنيا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگيا نومبر ايسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کيف تھا دسمبر جذبات مر چکے تھے
ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے
ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا يہ سال دوسرا ہے