مرے خواب جو تھے بکھر گئے کچھ اِدھر گئے کچھ اُدھرر گئے
وہ دکھا کے ایک جھلک مجھے مرے سامنے سے گذر گئے
نہ تھا وصل میرے نصیب میں مجھے دے رہے تھے فریب وہ
میں تھا منتظر کہ وہ آئیں گے وہ تو وعدہ کر کے مُکر گئے
جو بوقت عیش تھے آشنا وہ چلے گئے مجہے چھوڑ کر
سرِ راہ جب ہوا سامنا تو نظر بچا کے گذر گئے
تھا ستارہ میرا عروج پر تھے حریف خوف زدہ مرے
مگر آیا مجھ پہ زوال جب تو نصیب اُن کے سنور گئے
جسے دیکھئے وہ ھے غمزدہ میں ہوں برقی شاعرِ بے نوا
جو تھے میرے ہمدم و ہمنوا وہ نہ جانے آج کدھر گئے