جلا کے تُو بھی اگر آسرا نہ دے مجھ کو
یہ خوف ہے کہ ہَوا پھر بجھا نہ دے مجھ کو
میں اِس خیال سے مُڑ مُڑ کے دیکھتا ہُوں اُسے
بچھڑ کے بھی وہ کہیں پھر صدا نہ دے مجھ کو
فضائے دشت ‘اگر اب میں گھر کو یاد کروں
وہ خاک اُڑے کہ ہَوا راستا نہ دے مجھ کو
اِسی خیال سے شب بھر مَیں سو نہیں سکتا
کہ خوفِ خوابِ گزشتہ جگا نہ دے مجھ کو
تیرے بغیر بھی تیری طرح میں زندہ رہوں؟
یہ حوصلہ بھی دُعا کر خدا نہ دے مجھ کو
اُبھر رہی ہے میرے دِل میں پستیوں کے کششِ
وہ چاند پھر سے زمیں پر گرا نہ دے مجھ کو
میں اس لیے بھی اُسے خود مناؤں گا محسنؔ
کہ مجھ سے روٹھنے والا بُھلا نہ دے مجھ کو