بتاؤ دل کی بازی میں بھلا کیا بات گہری تھی؟
کہا، یُوں تو سبھی کچھ ٹھیک تھا پر مات گہری تھی
سُنو بارش ! کبھی خود سے بھی کوئی بڑھ کے دیکھا ہے؟
جواب آیا، اِن آنکھوں کی مگر برسات گہری تھی
سُنو، پیتم نے ہولے سے کہا تھا کیا، بتاؤ گے؟
جواب آیا، کہا تو تھا مگر وہ بات گہری تھی
دیا دل کا سمندر اُس نے تُم نے کیا کیا اس کا؟
ہمیں بس ڈوب جانا تھا کہ وہ سوغات گہری تھی
وفا کا دَشت کیسا تھا، بتاؤ تُم پہ کیا بِیتی ؟
بھٹک جانا ہی تھا ہم کو ، وہاں پر رات گہری تھی
تُم اس کے ذکر پر کیوں ڈوب جاتے ہو خیالوں میں؟
رفاقت اور عداوت اپنی اس کے ساتھ گہری تھی
نظر آیا تمہیں اُس اجنبی میں کیا بتاؤ گے؟
سُنو، قاتل نگاہوں کی وہ ظالم گھات گہری تھی