Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Saturday, June 18, 2011

Passionate...


میں جو دن کو بھی کہوں رات، وہ اقرار کرے
مجھ کو حسرت ہے کوئی یوں بھی مجھے پیار کرے
میری خاطر وہ سہے دنیا کے طعنے۔ دھکّے
ننگے پاؤں سے وہ صحراؤں کے کانٹے چکھّے
مجھ کو پانے کے لئے جُون کے روزے رکھّے
میں ہوں دیوانہ، وہ دیوانوں سا اِظہار کرے
میں جو دِن کو بھی کہوں رات، وہ اقرار کرے
مجھ کو حسرت ہے کوئی یوں بھی مجھے پیار کرے<

وصی شاہ

کبھی کبھی کوئی یاد

کبھی کبھی کوئی یاد
کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر
ایسے دستک دیتی ہے
شام کو جیسے تارا نکلے
صبح کو جیسے پھول
جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر
روشنیوں کا نزول
جیسے روح کی پیاس بجھائے
اُترے کوئی رسول
جیسے روتے روتے اچانک
ہنس دے کوئی ملول
کبھی کبھی کوئی یاد
کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر
ایسے دستک دیتی ہے

بھلے دنوں کی بات ہے


بھلے دنوں کی بات ہے
بھلی سی اک شکل تھی
نہ یہ کہ حسن طام ہو
نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو
کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر
بھلا بھلا سا سفر لگے

کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب
فضا کا رنگ روپ تھی
وہ گرمیوں* کی چھاؤں تھی
وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدتوں جدا رہے
نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشہء وفا پہ ضد
نہ یہ کہ ازن عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں
کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلفی
کہ آئینہ حیا کرے

نہ اختلاط میں وہ رنگ
کہ بدمزہ ہوں خواہشیں
نہ اس قدر سپردگی
کہ زچ کریں نوازشیں

نہ عاشقی جنون کی
کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن
کہ دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی کافی
کبھی سکوت بھی سخن
کبھی تو کشت زعفران
کبھی اداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے
معاملات دل کی بھی
وصال جاں فزا تو کیا
فراق جاں گسل کی بھی

سو اک روز کیا ہوا
وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں
وہ میری ضد سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا
وہ عشق کو قفس کہے
کہ تمام عمر کے ساتھ کو
بد تر از ہوس کہے

ہجر شجر نہیں ہے کہ
ہمیشہ پاء بہ گل رہے
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں
گلے میں مستقل رہیں

محبتوں کی وسعتیں
ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں
ساجن بے وفا میں ہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں
کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہے
اسی کے پریم میں رہوں

تمہاری سوچ جو بھی ہو
میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے
یہ بات آج کی نہیں

نہ اس کو مجھ پہ مان تھا
نہ مجھ کو اس پہ زعم تھا
جو عہد ہی کوئی نہ ہو
تو کیا غم شکستگی

سو، اپنا اپنا راستہ
ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی
میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی
بھلی سی اس کی دوستی
اب اس کی یاد
رات دن نہیں
۔ مگر کبھی کبھی

Wednesday, June 15, 2011

ابھی خود کو نہ تنہا کر


ابھی خود کو نہ تنہا کر
تیری آنکھیں سمندر ہیں
سمندر کو نہ صحرا کر
میرا دل ڈوب جاتا ہے
مجھے ایسے نہ دیکھا کر
ہوا مجھ سے کہے پاگل
نہ یوں رستوں میں بیٹھا کر
وہ اک دن چھوڑ جائے گا
اسے اتنا نہ چاہا کر

محبت یاد رکھتی ہے


یا خوا ب سے محروم آنکھوں میں
کِسی عہدِ رفاقت میں
کہ تنہائی کے جنگل میں
خیالِ خال و خد کی روشنی کے گہرے بادل میں
چمکتی دُھوپ میں یا پھر
کِسی بے اَبر سائے میں
کہیں بارش میں بھیگے جسم و جاں کے نثر پاروں میں
کہیں ہونٹوں پہ شعروں کی مہکتی آبشاروں میں
چراغوں کی سجی شاموں میں
یا بے نُور راتوں میں
سحر ہو رُونما جیسے کہیں باتوں ہی باتوں میں
کوئی لپٹا ہوا ہو جس طرح
صندل کی خوشبوؤں میں
کہیں پر تتلیوں کے رنگ تصویریں بناتے ہوں
کہیں جگنوؤں کی مُٹھیوں میں روشنی خُود کو چھُپاتی ہو
کہیں کیسا ہی منظر ہو
کہیں کیسا ہی موسم ہو
ترے سارے حوالوں کو
تری ساری مثالوں کو
محبت یاد رکھتی ہے

نوشی گیلانی

يہ غم نہيں ہے


يہ غم نہيں ہے وہ جسے کوئي بٹا سکے
غمخواري اپني رہنے دے اے غمگسار بس

ڈر ہے دلوں کے ساتھ اميديں بھي پس نہ جائيں
اے آسپائے گردش ليل و نہار بس

ديں غير دشمني کا ہماري خيال چھوڑ
ياں دشمني کے واسطے کافي ہيں يار بس

آتا نہيں نظر کہ يہ ہو رات اب سحر
کي نيند کيوں حرام بس اے انتظار ميں

تھوڑي سي رات اور کہاني بہت بڑي
حالي نکل سکيں گے نہ دل کے بخار بس

الطاف حسين حالي

خوابوں کو باتيں کرنے دو


آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے

آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں

جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

راہ گزر کا مومسم کا ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے

کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دن
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

کٹھن ہے راہ


کٹھن ہے راہ گزر تھوڑي دور ساتھ چلو
بہت کڑا ہے سفر تھوڑي دور ساتھ چلو

تمام عمر کہاں کوئي ساتھ ديتا ہے
يہ جانتا ہوں مگر تھوڑي دور ساتھ چلو

نشے ميں چور ہوں ميں بھي تمہيں ہوش نہيں
بڑا مزہ ہو اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

يہ ايک شب کي ملاقات بھي غنيمت ہے
کسے ہےکل کي خبر تھوڑي دور ساتھ چلو

ابھي تو جاگ رہے ہيں چراغ راہوں کے
ابھي ہے دور سحر تھوڑي دور ساتھ چلو

طواف منزل جاناں ہميں بھي کرنا ہے
فراز تم بھي اگر تھوڑي دور ساتھ چلو

اس سے پہلے


اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں
کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں
تو بھي ہيرے سے بن گيا تھا پتھر
ہم بھي جانے کيا ہو جائيں
تو کہ يکتا بے شمار ہوا
ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں
ہم بھي مجبوريوں کا عذع کريں
پھر کہيں اور مبتلا ہو جائيں
ہم اگر منزليں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں
دير سے سوچ ميں ہيں پروانے
راکھ ہو جائيں يا ہوا ہوجائيں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ايسے لپٹيں کہ قبا ہو جائيں
بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز
کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں

احمد فراز

ياد


اس موسم ميں جتنے پھول کھليں گے
ان ميں تيري ياد کي خوشبو ہر سو روشن ہوگي
پتہ پتہ بھولے بسرے رنگوں کي تصوير بناتا گزرے گا

اک ياد جگاتا گزرے گا
اس موسم ميں جتنے تارے آسمان پہ ظاہر ہوں گے
ان ميں تيري ياد کا پيکر منظر عرياں ہوگا
تيري جھل مل ياد کا چہرا روپ دکھاتا گزرے گا
اس موسم ميں
دل دنيا ميں جو بھي آہٹ ہوگي
اس ميں تيري ياد کا سايا گيت کي صورت ڈھل جائے گا
شبنم سے آواز ملا کر کلياں اس کو دوہرائيں گي
تيري ياد کي سن گن لينے چاند ميرے گھر اترے گا
آنکھيں پھول بچھائيں گي
اپني ياد کي خوشبو کو دان کرو اور اپنے دل ميں آنے دو
يا ميري جھولي کو بھر دو يا مجھ کو مرجانے دو
احمد فراز

ہر کوئي دل


ہر کوئي دل کي ہتھيلي پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سيراب کرے وہ کسے پياسا رکھے

عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مري جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے

ہم کو اچھا نہيں لگتا کوئي ہم نام تيرا
کوئي تجھ سا تو پھر نام بھي تجھ سا رکھے

دل بھي کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسي اور کا ہونے دے نہ اپنا دکھے

قناعت ہے اطاعت ہے کے چاہت فراز
ہم تو راضي ہيں وہ جس حال میں جيسا رکھے

احمد فراز

چھيڑے کبھي


چھيڑے کبھي ميں نے لب و رخسار کے قصے
گا ہےگل و بلبل کي حکايات کو نکھارا

گا ہے کسي شہزادے کے افسانے سنائے
گا ہے کيا دنيائے پرستاں کا نظارا

ميں کھويا رہا جن و ملائک کے جہاں ميں
ہر لحظہ اگر چہ مجھے آدم نے پکارا

احمد فراز

برسوں کے بعد


برسوں کے بعد ديکھا شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کچھے کچھے سے آنکھيں جھکي جھکي سي
باتيں رکي رکي سي، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ

خوابوں ميں خواب اس کے يادوں ميں ياد اس کي
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے کہ رتجگا سا

پہلے بھي لوگ آئے کتنے ہي زندگي ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلي محبتوں نے وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا

يہ عالم شوق


يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے
وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے

يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا
کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے

ہميشہ کيلئے مجھ سے بچھڑ جا
يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے

غلط ہے سنا پر آزما کر
تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے

يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے
کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے

يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر
کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے

فراز اپنے سوا ہے کون تيرا
تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے

احمد فراز

اک سنگ


اک سنگ تراش جس نے برسوں
ہيروں کي طرح صنم تراشے
آج اپنے صنم کدے ميں تنہا
مجبور نڈھال زخم خوردہ
دن رات پڑا کراہتا ہے
چہرے اجاڑ زندگي
لمحات کي ان گنت خراشيں
آنکھوں کے شکتہ مرکدوں ميں
روٹھي ہوئي حسرتوں کي لاشيں
سانسوں کي تھکن بدن کي ٹھنڈک
احساس سے کب تلک لہو لے
ہاتھوں ميں کہا سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پيکروں کے جھولے
يہ زخم طلب يہ نامرادي
ہر بت کے لبوں پہ ہے تبسم
اے تيشہ بد ست ديوتائو
انسان جواب چاہتا ہے

Ahmed Faraz

اب رت بدلي


اب رت بدلي تو خوشبو کا سفر ديکھے گا کون
زخم پھولوں کي طرح مہکيں گے پر ديکھے گا کون

زخم جتنے بھي تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تيرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر ديکھے گا کون

وہ ہوس ہو يا وفا ہو بات محرومي کي ہے
لوگ پھل پھول ديکھيں گے شجر ديکھے گا کون

ہم چراغ شب ہي جب ٹہرے تو پھر کيا سوچنا
رات تھي کس کا مقدر اور سحر ديکھے گا کون

ہر کوئي اپني ہوا ميں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں ميں تير چشم تر ديکھے گا کون

احمد فراز

اب کے ہم بچھڑے


اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتي
يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں

غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں

تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں

اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں

...ٹہر گيا


ٹہر گيا تو اس کے زد ميں آئے گا
اس سے پہلے وقت لگائے ٹھوکر چل

تمہاري گرم روي الاماں ارے توبہ
پناہ ڈھونڈتي ہيں گردشيں زمانے کي

گنگنانے کي اگر فرصت ہو
زندگي ساب بھي بن سکتي ہے

ہم سے شفق پرستوں کي شايد ہمارے بعد
صورت بھي ديکھنے کو ترس جائے گي شام

بے سبب آج مرا رو دينا
اک سبب ہوگيا رسوائي کا

ساتھ تم ہو تو يہي رنگ شفق کہلائے
شام فرقت ہوتو عاشق کا لہو کہتے ہيں

سن کے آہٹ دھڑکنے لگتا ہے
ہم نے ديکھا ہے جو حوصلہ دل کا

غرور صبح بہارا کو ہے صباحت پر
تم اپنے رخ سے پرے زلف مشک بوتو کرو

کرشن راحت

ٹھوکر جہاں


ٹھوکر جہاں لگي وہ سنبھلنے کا تھا مقام
ہم اس کو اتفاق ہي گردانتے رہے

تو ميري التجا پہ خفا اس قدر نہ ہو
تيري جبيں سے اٹھ نہ سکے گا شکن کو بوجھ

کيوں شفق کو شفق نہ سمجھا جائے
کيوں تمنائوں کا لہو کہئيے

اک پردہ حائل نے بچھا رکھا ہے اس کو
عرياں ہوا گر حسن تو آئينہ پگھل جائے گا

کہتے ہيں وہ گوہر ناياب عنقا ہوگيا
سنتےہيں اشک ندامات بھي تھا انسانوں کے پاس

تمہاري ياد کا يہ سلسہ معاذ اللہ
ذرا سا فاصلہ اشکوں کے درمياں نہ ملا

کچھ تو انساں نے پسارا ہے بہت پائے طلب
اور کچھ سائے سمٹتے گئے ديواروں کے

تيرے اصلي روپ سے سب گھبرائيں گے
اس نگري ميں راحت بھيس بدل کر چل

ميراث ہي اس کي ہو يہ خانہ دل جيسے
خواہش نے مرے دل ميں يوں پائو پسارے ہيں

کرشن راحت

Monday, June 13, 2011

ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر


ہم نے کاٹی ہیں تری یاد میں راتیں اکثر
دل سے گزری ہیں تاروں کی باراتیں اکثر

عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر

ہم سے اک بار بھی جیتا ہے نہ جیتے گا کوئی
وہ تو ہم جان کے کھا لیتے ہیں ماتیں اکثر

ان سے پوچھو کبھی چہرے بھی پڑھے ہیں تم نے
جو کتابوں کی کیا کرتے ہیں باتیں اکثر

حال کہنا ہو کسی سے تو مخاطب ہے کوئی
کتنی دلچسپ ہوا کرتی ہیں باتیں اکثر

اور تو کون ہے جو مجھ کو تسلی دیتا
ہاتھ رکھ دیتی ہیں دل پر تری باتیں اکثر

جاں نثار اختر

ہر اِک چلن میں اُسی مہربان سے ملتی ہے


ہر اِک چلن میں اُسی مہربان سے ملتی ہے
زمیں ضرور کہیں آسماں سے ملتی ہے

ہمیں تو شعلہِ خرمن فروز بھی نہ ملا
تِری نظر کو تجلّی کہاں سے ملتی ہے؟

تِری نظر سے آخر عطا ہوئی دل کو
وہ اِک خلِش کہ غمِ دو جہاں سے ملتی ہے

چلے ہیں سیف وہاں ہم علاجِ غم کے لیے
دلوں کو درد کی دولت جہاں سے ملتی ہے

سیف الدین سیف

اِک سمندر ہے اور بھنور کتنے


اِک سمندر ہے اور بھنور کتنے
جانے درپیش ہیں سفر کتنے

وہ زمانے تیری رفاقت کے
آج لگتے ہیں مختصر کتنے

ہم کو اس راہگزارِ ہستی میں
سُکھ کے سائے ملے، مگر کتنے

حرفِ حق کی تلاش میں اکثر
لوگ پھرتے ہیں در بدر کتنے

موت کا مُدعا نہیں کُھلتا
دل میں بیٹھے ہوئے ہیں ڈر کتنے

اِک قلم ہے، ہزار تحریریں
ایک رستے میں ہیں سفر کتنے

ہم سمجھتے ہیں باخبر جن کو
وہ بھی ہوتے ہیں بے خبر کتنے

کرامت بخاری

Tuesday, June 7, 2011

عمرگزرے گی امتحان میں کیا


عمرگزرے گی امتحان میں کیا
داغ ھی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہربات بے اثر ہی رہی
نقص ھے کچھ مرے بیان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتےہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ھوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

جون ایلیا

کس کو گماں ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے


کس کو گماں ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے
ہائے وہ روز وشب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

یادش بخیر عہدِ گزشتہ کی صحبتیں
اک دور تھا عجبکہ مرے ساتھ تم بھی تھے

بے مہری حیات کی شدت کے باوجود
دل مطمئن تھا جب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

میں اور تقابل غمِ دوراں کا حوصلہ
کچھ بن گیا سبب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

اک خواب ہو گئی ھے رہ ورسمِ دوستی
اک وہم سا ھے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

وہ بزمِ دوست یاد توہو گی تمہیں فراز
وہ محفلِ طرب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

جانے ہےکیسی اُسکی محبت کی انتہا


رکھتا ہے مجھے تھام کہ گرنے نہیں دیتا
میں ٹوٹ بھی جاؤں تو بکھرنے نہیں دیتا

اس ڈر سے کہیں کانٹا نہ چُب جائے ہاتھ میں
وہ پھول بھی مجھ کو پکڑنے نہیں دیتا

وہ اس قدر حساس محبت میں ہے میری
کوئی غم میرے سینے میں وہ پلنےنہیں دیتا

جس رات کی تاریکی سے آتا ہے مجھے خوف
اس دن کو وہ پھر رات میں ڈھلنے نہیں دیتا

جانے ہےکیسی اُسکی محبت کی انتہا
کہ خود کو بھی بندھنوں میں بندھنے نہیں دیتا

آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا


آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا
دولتِ درد کو دنیا سے چھپا کر رکھنا

کل گئے گذرے زمانوں کو خیال آئے گا
آج اتنا بھی نہ راتوں کو منور رکھنا

اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے
دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا

آس کب نہیں تھی دل کو تیرے آ جانے کی
پر نہ ایسی کہ قدم گھر سے نہ باہر رکھنا

ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے ہو فراز
درد کیسا ہی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھنا

بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے


بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے
کہ اک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے

ہمارے ساتھ رکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی در بدر آئے

گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نگاہ مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے

چھٹہ غبار تو راہوں میں کتنے پھول کِھلے
بجی جو ڈف تو فصیلوں پہ کتنے سر آئے

بہار راس نہ آئی قفس نشانوں کو
اڑان بھول گئے جوں ہی بال و پر آئے

شاعر : ذاہد مسعود

یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے



دل گِرفتاں ہی سہی بزّم سجا لی جائے
یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے

رفتہ رفتہ یہی ذنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بُنیاد نہ ڈالی جائے

مصحفِ رخُ ہے کِسی کا کہ بیاضِ حافظ
ایسے چہرے سے تو بس فعال نکالی جائے

وہ مُّروت سے ملا ہے تو جُھکا لُوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے

بے نوا سِحر کا سایہ ہے میرے دل پہ فراز
کس طرح سے میری آشفتہ خیالی جائے




شاعر: احمد فراز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, June 6, 2011

...نہ ھو


میرے ساتھ تم بھی کرو دعا یوں کسی کے حق میں برا نہ ھو
کہیں اور ھو نہ یہ حادثہ کوئی راستے میں جدا نہ ھو

سر شام ٹھہری ھوئی زمیں جہاں*آسماں ھے جھکا ھوا
اسی موڑ پر مرے واسطے وہ چراغ لے کے کھڑا نہ ھو

مری چھت سے رات کی سیج تک کوئی آنسوؤں*کی لکیر ھے
ذرا بڑھ کے چاند سے پوچھنا وہ اسی طرف سے گیا نہ ھو

مجھے یوں لگا کہ خموش خوشبو کے ھونٹ تتلی نے چھو لیے
انہیں زرد پتوں کی اوٹ میں کوئی پھول سویا ھوا نہ ھو

اسی احتیاط میں وہ رھا اسی احتیاط میں میں رھا
وہ کہاں کہاں مرے ساتھ ھے کسی اور کو یہ خبر نہ ھو

وہ فرشتے آپ تلاش کریں کہانیوں کی کتاب میں
جو برا کہیں نہ برا سنیں کوئی شخص ان سے خفا نہ ھو

وہ فراق ھو کہ وصال ھو تری آگ مہکے گی ایک دن
وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا جو چراغ بن کے جلا نہ ھو