Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Monday, November 15, 2010

لہو ہر لفظ روتا ہے


یہ ہی وعدہ لیا تھا نا
ہمیشہ خوش ہی رہنا ہے
لو دیکھو دیکھ لو آ کہ
ہماری آنکھوں کو دیکھو تم
یہ کتنی شوخ لگتی ہیں
ہمارے ہونٹوں کو دیکھو تم
ہمیشہ مسکراتے ہیں
کوئی بھی غم اگر آیا
اسے ہنس کر سہا ہم نے
ہمارے چہرے کو دیکھو تم
ہمیشہ پر سکون ہوگا
کیا تھا ہم نے جو تم سے
وہ وعدہ کر دیا پورا
مگر یہ بات ہے پیارے
کبھی جو وقت مل جائے
تو ہماری شاعری پڑھنا
تمہیں محسوس تو ہوگا
کہیں تلخی بھرا لہجہ
کہیں پر درد بھر جھیلیں
کہیں لہجے کی کڑواہٹ
سنو ہم خوش تو ہیں لیکن
لہو ہر لفظ روتا ہے
لہو ہر لفظ روتا ہے

محبت


محبت اس طرح جیسے گلابی تِتلیوں کے پر
محبت زندگی کی جبینِ ناز کا جُھومر
محبت آرزو کی سیپ کا انمول سا گوہر
محبت آس کی دھوپ میں امید کی چادر
تیرے گیسُو
تیری پلکیں
تیری آنکھیں
محبت ہے تیری باتیں
محبت ہے تمھارے ہجر کی اور وصل کی راتیں
محبت ہے تیری دھڑکن
محبت ہے میری سانسیں
محبت میری خاموشی
تمھاری بات جیسی ہے
محبت کو اگر سمجھو تو
اپنی ذات جیسی ہے

ایسا ہوسکتا ہے نا؟


ایسا ہوسکتا ہے نا؟
کہ میں نے جان لیا ہو
تجھے تیری ذات کی گہرائی تک
تیرے محل سے لے کر تنہائی تک
ایسا ہوسکتا ہے نا ؟
کہ میں نے بہت کرب سہا ہو
تیرے ستم سے لے کر تیری مسیحائی تک
اور ایسا بھی تو ہوسکتا ہے نا؟
تجھے کوئی دکھ نہ ہو
میرے ملنے سے لے کر میری جدائی تک
ہاں یقین کرو ایسا ہوسکتا ہے شائد
کہ عمر بھر کے لیے کافی ہو
یہ دکھ کہ میں نے سفر کیا
اپنی ذات سے لے کر
تیری ذات کی رسائی تک


کبھی پانی نہیں ملتا!!

جدائی کے دنوں میں جب
دلوں کی لالیاں
پیلی رتوں کی سرد آہیں اوڑھ لیتی ہیں
تو پھر
سوکھی زمینوں پر
کبھی بارش نہیں ہوتی
کبھی سبزہ نہیں کھلتا
جو منزل کی تمنا میں
سر۔ دشت وفا تنہا مسافر ہے
اسے یادوں کی چھاگل سے
کبھی پانی نہیں ملتا!!


مَیں کون ہوں؟

مَیں کون ہوں؟
وہ کل بھی پوچھتی تھی یہ
وہ پوچھتی ہے آج بھی
مَیں کون ہوں؟
سوال ہر نظر میں ہیں عجیب سے
گو اُس کو جانتے ہیں سب قریب سے
وہ عام ہے کہ خاص ہے
……اُداس ہے
ہے اُس کی اوڑھنی بھی تار تار سی
خزاں ہے آج ‘کل تلک بہار تھی
وہ مُنصفی کے نام پر لزراُٹھے
زبان اُس کی کٹ گئی
………….وہ کیا کہے؟
سماعتوں میں آندھیوں کا شور ہے
…………..وہ کیا سُنے؟
کوئی تو اُس کا ہاتھ بڑھ کے تھام لے
کوئی تو آئے اُس کو اپنا نام دے
وہ کون ہے؟
وہ پوچھتی ہے ہر کسی سے آج بھی
مَیں کون ہوں؟؟؟

فاخرہ بتول

Friday, November 12, 2010

گم ہوگئی

پنی یادوں کی کہیں پر اک کڑی گُم ہو گئی
شہر سب باقی رہا بس وہ گلی گم ہوگئی

جانے کیوں پہچاننے میں ہو گئی تاخیر کچھ
گھر کی جب آرائشوں میں سادگی گم ہو گئی

جانے کتنے سائلوں نے اپنے دامن بھر لیے
میری جانب آتے آتے ہر خوشی گم ہو گئی

میری تنہائی نے میری ذات کو افشا کیا
محفلوں کی رونقوں میں بے خودی گُم ہو گئی

جب تلک تھے بے خبر یہ آرزو تھی جان لیں
آنکھ جب روشن ہوئی تو روشنی گم ہو گئی

موت ہاتھوں میں آُٹھائے رو رہے ہیں لوگ سب
میرے شہروں میں کہاں پر زندگی گُم ہو گئی

زندگی کے پیچ و خُم میں دل اُلجھ کر رہ گیا
یاد بھی تیری نہ جانے کس گھڑی گُم ہو گئی

سبھی جذبے بدلتے جا رہے ہیں


سبھی جذبے بدلتے جا رہے ہیں
کہ جیسے خواب مرتے جا رہے ہیں

کوئی دن کے لیئے دل کے مکیں کو
نظر انداز کرتے جا رہے ہیں

جو دل کا حال ہے دل جانتا ہے
بظاہر تو سنبھلتے جا رہے ہیں

چلے تو ہیں تمہارے شہر سے ہم
کفِ افسوس مَلتے جا رہے ہیں

کبھی جن میں غرور ِ تازگی تھا
وہ خد و خال ڈھلتے جا رہے ہیں

"آؤ بارش سے تو پوچھیں


کیا اس سے بھی وعدہ کر کے چھوڑ گیا ہے کوئی اس کو
کیا اس کو بھی نیند نہیں آتی برسوں سے
کیا اس کو بھی پھولوں سے شکوہ ہے کوئی
اس کے ساتھ بھی کھیل ہواؤں نے کھیلا ہے
دھواں دھواں سا اس کا چہرہ کیوں ہے آخر؟
بھیگی بھیگی اس کی پلکیں کس نے کردیں؟
آؤ بارش سے یہ پوچھیں۔

لڑکیاں ادھوری باتیں کہتی ہی اچھی لگتی ہیں

ادھوری باتوں کی فضا میں
ادھوری باتوں کا مزا
چلےتوآب حیات جیسا،کبھی خاک جیسا
کبھی خوابوں میں عذاب جیسا،کبھی خواب میں عذاب جیسا
کبھی بارشوں میں کھلتےگلاب جیسا
کبھی خواہشوں کےبہتےسراب جیسا
پھربھی لڑکیاں ادھوری باتیں ہی کہتی اچھی لگتی ہیں

آنکھیں کھولیں تولفظ نہ کھولیں
دل کھولیں توخیال نہ کھولیں
وسوسوں کےانجان جزیروں میں
کبھی رل جائیں تودیرتلک نہ بولیں
ادھوری باتیں،بےوجہ باتیں،بےخیال باتیں

جوشروع ہوکرکبھی ختم نہ ہوں
آنکھ مچولی کھیلیں،گم نہ ہوں
اک مسلسل کیفیت چلے،کم نہ ہو
دیےتیزہوا میں بھی رہیں،مدھم نہ ہوں
ادھوری بےنام باتیں،بےقرارباتیں،بےشمارب اتیں

ہمیشہ بےنام نہیں ہوتیں،گمنام نہیں ہوتیں
سکھ کی چادرمیں لپٹی لڑکیاں،ہمیشہ سکھ کی نیندنہیں سوتیں
خواہشوں کی منہ بندکلیاں منافقت کی سرزمیں پر
چپ چپ روتیں اکثرکھل نہیں پاتیں
ادھوری باتوں میں دوڑتی چھپتی ادھوری خواہش

مگرادھوری باتیں سنناہمیشہ اچھی لگتی ہیں
جوآنکھیں دیرتک نہیں سوتیں،صبح جلتی ہیں
امکاں کےبیچ اک مکاں بناکراس میں رہتے
لڑکیاں پل پل میں صدیوں کےانوکھےدکھ جھیلتی ہیں
پھربھی لڑکیاں ادھوری باتیں کہتی ہی اچھی لگتی ہیں

الجھتے کیوں ھو

ایک جھونکے کی طرح دل میں اترتے کیوں ھو
گر بچھڑنا تھا تو یادوں میں چمکتے کیوں ھو
ھو سکے تو مجھے خوشبو سے معطر کر دو
پھول بن کے میرے بالوں میں اٹکتےکیوں ھو
تم جو کہتے ھو کوئی بات کبھی غزلوں میں
اپنے الفاظ میں کہنے سے جھجکتے کیوں ھو
ھم نہ کہتے تھے اسے کھویا تو مر جاؤ گے
اب چراغوں کی طرح شب کو سسکتےکیوں ھو
جس کو جانے دیا روکا بھی نہیں الفت میں
اس کے سائے سے سر شام لپٹتے کیوں ھو
میرے دل سے کب کسی ھمدرد نے پوچھا
تم شب ہجر کے لمحوں میں بکھرتے کیوں ھو
جس نے خود سے کبھی اقرار محبت نہ کیا
اس کی خاطر بھری دنیا سے الجھتے کیوں ھو

بچھڑنے سے ذرا پہلے


بچھڑنے سے ذرا پہلے
اگر وہ ازن گویائی مجھے دیتی
مجھے اس کو بتانا تھا
کہ میں اس کی ہتھیلی پر
ادھورے خواب رکھ کر بھول آیا ہوں
میں اس کی راہگزاروں میں
اسے آنکھوں میں بھر لینے کی حسرت بھول آیا ہوں
میں اسے بے شکن بستر
کے تکیے تلے بے فکر نیندیں بھول آيا ہوں
اگر وہ بولنے کا اذن دیتی تو
مجھے اس کو بتانا تھا
کہ میں اس کے لیے الفاظ کی مالا پروتا تھا
مگراب بے ہنر ہونٹوں کو گویائی نہیں ملتی
مجھے اس کو بتانا تھا
میری آنکھیں اگر اس کو نہ دیکھیں تو
بہت بے نور رہتی ہیں
کوئی منظر بھی طغیانی کے آگے رک نہیں پاتا
مجھے اس کو بتانا تھا
کہ اس کامطلب ہی میری زندگانی ہے
بنا اس کے میری ہر سانس
میری رائيگانی ہے

کیا تم بھی ،،،،،؟؟


کیا تم بھی ،،،،،؟؟

شام کی دہلیز پہ آس کا دیپ جلاتے ھو

اور کسی آوارے پتے کی آہٹ پر

دروازے کی طرف ھاگے جاتے ھو

کیا تم بھی ،،،،،؟؟

درد چپانے کی کوشش کرتے کرتے

اکثر تھک سے جاتے ھو

اور بلاوجہ مسکراتے ھو

کیا تم بھی ،،،،،؟؟

نیند سے پہلے پلکوں پر ڈھیروں خواب سجاتے ھو

یا پھر بستر پر لیٹ کر

روتے روتے سوجاتے ھو

کیا تم بھی ،،،،،؟؟

......بچھڑنا


سنو۔۔

تم تو عزم والے ہو
بلا کا ضبط رکھتے ہو

تمہیں کچھ بھی ہیں ہوگا

مگر دیکھو۔۔۔۔۔

جسے تم نے چھوڑ دیا ہے
اسے تو ٹھیک سے شاید

بچھڑنا بھی نہیں آتا۔۔۔

”تو"

جسے عکس عکس گنوادیا
کبھی رو برو تھی مرے لیئے

جسے نقش نقش بجھا دیا
کبھی چار سو تھی مرے لیئے

جو حد ہوا سے بھی دور ہے
کبھی کو بہ کو تھی مرے لیئے

جو تپش پے موج سراب کی
کبھی آبجو تھی مرے لیئے

جسے ”آپ" لکھتا ہوں خط میں اب
کبھی صرف ”تو" تھی مرے لیئے

میری گڑیا لادے


کوئی مجھ کو میرا بھرپور سراپا لادے
میرا بازو، میری آنکھیں، میرا چہرا لادے

ایسا دریا جو کسی اور سمندر میں گرے
اس سے بہتر مجھ کو میرا صحرا لادے

کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے میری عمرٍ رواں
میرا بچپن، میرے جگنو، میری گڑیا لادے

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہوں
کوئی چہرا تو میرے شہر میں ایسا لادے

مجھے تم سے محبت ہے

~*~*~*
مرے ساتھی
مری یہ روح میرے جسم سے پرواز کر جائے
تو لوٹ آنا
مری بے خواب راتوں کے عذابوں پر
سسکتے شہر میں تم بھی
ذرا سی دیر کو رکنا
مرے بے نور ہونٹوں کی دعاؤں پر
تم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا
بس اتنی بات کہہ دینا
مجھے تم سے محبت ہے

"لمحے روٹھ بھی جاتے ہیں"


بوجھل بوجھل،سندر سندر، گہری گہری آنکھوں میں
رات کی چنچل سکھیوں میں
اپنی ریشمی پلکوں سے
کوئی خواب کبھی مت بننا
سپنے ٹوٹ بھی جاتے ہیں


جیوں ایک سفر ہے ایسا،جس کی منزل تنہائی ہے
جو بھی آس لگائے اس سے،پگلا ہے سودائی ہے
کسی کو بھی اپنا مت کہنا
ساتھی چھوٹ بھی جاتے ہیں


مٹھی میں جو لمحے ہیں
سارے تتلیوں جیسے ہیں
رنگوں کی صورت میں آخر ہاتھوں پر رہ جائیں گے
جانے والے ہر اک پل کو پلکوں بیچ چھپالو تم
ورنہ ایسا بھی ہوتا ہے

لمحے روٹھ بھی جاتے ہیں

Tuesday, November 2, 2010

...ہم نازک نازک دل والے

کبھی ہستے ہیں کبھی روتے ہیں

کبھی دل میں خواب پیروتے ہیں

کبھی محفل محفل پھرتے ہیں

اور ذات میں تنہا ہوتے ہیں

کبھی چھپ کے موحار سجاتے پیں

کبھی گیت لبوں پہ ہوتے ہیں

کبھی سب کا دل بہلاتے ہیں

کبھی ذات میں تنہا ہوتے ہیں

کبھی شب بھر جاگتے رہتے ہیں

کبھی لمبی تان کے سوتے ہیں

ہم نازک نازک دل والے

بس اپنے آپ میں رہتے ہیں

ہم کون کسی کے ہوتے ہیں

ہم نازک نازک دل والے

..تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے

کتنا سہل جانا تھا

خوشبوؤں کو چھو لینا

بارشوں کے موسم میں شام کا ہرایک منظر

گھر میں قید کر لینا

روشنی ستاروں کی مٹھیوں میں بھر لینا

کتنا سہل جانا تھا

خوشبوؤں کو چھو لینا

جگنوؤں کی باتوں سے پھول جیسے آنگن میں

روشنی سی کرلینا

اس کی یاد کا چہرہ خوابناک آنکھوں کی

جھیل کے گلابوں پر دیر تک سجا رکھنا

کتنا سہل جانا تھا

اے نظر کی خوش فہمی ! اس طرح نہیں ہوتا

“تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے“

...پھر ایک تیلی جلا رہا ہوں

پھر ایک سگریٹ جلا رہا ہوں

پھر ایک تیلی بجھا رہا ہوں

تیری نظر میں یہ مشغلہ ہے

میں تو اسکا وعدہ بھلا رہا ہوں میں

سمجھنا مت اسکو میری عادت

یہ دھواں جو میں اڑا رہا ہوں

یہ تیری یادوں کے سلسلے ہیں

میں تیری یادیں جلا رہا ہوں

میں پی کے اتنی بھک چکا ہوں

کی غم کے قصے سنا رہا ہوں

اگر تمہیں غم ہے تو پاس آؤ

میں پی رہا ہوں پلا رہا ہوں

پھر ایک تیلی جلا رہا ہوں

....آگ


شعلے بھڑک رہے تھے
آنسو چھلک رہے تھے
کسی نے گزرتے ہوئے پوچھا
کتاب جلا رہے ہو ؟
تڑپ کر وہ بولا نہیں ،

“خواب جلا رہا ہوں”

....اڑان

تاریکیاں الجھتی ہیں وہم و گمان سے

سورج اتارنا ہے مجھے آسمان سے

قسمت نے پھر سے پاؤں میں رستے بِچھا دیے

میں چُور چُور تھا ابھی پِچھلی تھکان سے

خوشبو کو اپنی سانس کی ڈوری میں باندھ کر

ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں تیرے مکان سے

گم سم کھڑا ہوں تیرے تصور کی دھوپ میں

جیسے گزر رہا ہو کوئی اپنی جان سے

عرفان بال و پر میرے کُھلنے کی دیر تھی

ڈرنے لگے ہیں آسماں، میری اڑان سے

...کہاں آتے ہیں

تُو بتا اے دلِ بے تاب کہاں آتے ہیں

ہم کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں

میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کُچھ لیکن

ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں

مدتوں بعد تُجھے دیکھ کے دل بھر آیا

ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں

ہم کس طرح تیرے در پہ ٹھکانہ کر لیں

ہم فقیروں کو یہ آداب کہاں آتے ہیں

سر بسر جن میں فقط تیری جھلک ملتی ہے

اب میسر ہمیں وہ خواب کہاں آتے ہیں

... کبھی کبھی


ملتا ہے اپنے آپ سے انساں کبھی کبھی

ہوتا ہے اس کے درد کا درماں کبھی کبھی

مشکل پڑے تو ہنس کے گلے سے لگائیے

مشکل کو کر کے دیکھئے حیراں کبھی کبھی

ان کی جسارتوں کا برا نہ منائیے

چُومیں ہیں اشک آپ کے مژگاں کبھی کبھی

کس درجہ معتبر ہے خمارِ وصالِ یار

لیتی ہے امتحاں شبِ ہجراں کبھی کبھی

فرقت ہے جان لیوا تو قربت ہے جاں تراش

ہجر و وصال ہوتے ہیں یکساں کبھی کبھی

شکوے گِلے اٹھا کہ کہاں تک چلے کوئی

کرتا ہوں خود کو بے سرو ساماں کبھی کبھی

خاورکو میزبانی کی عادت نہیں گئی

بنتا ہے اپنا آپ ہی مہماں کبھی کبھی

...اچھے لگتے ہیں

تم خود سوچو آدھی رات کو ٹھنڈے چاند کی چھائوں میں
تنہا راہوں پر ہم دونوں کتنے اچھے لگتے ہیں

آخر آخر سچے قول بھی چُھبتے ہیں دل والوں کو
پہلے پہلے پیار کے جُھوٹے وعدے اچھے لگتے ہیں

...میں بھول جاؤں تمہیں

میں بھول جاؤں تمہیں

اب یہی مناسب ہے

مگر بھُلانا چاہوں تو کس طرح بھُولوں

کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو

کوئی خواب نہیں

یہاں تو دل کا یہ عالم ہے

کیا کہوں ۔۔۔۔ کمبخت

بھلا سکا نہ یہ وہ سلسلہ جو تھا ہی نہیں

وہ ایک خیال جو آواز تک گیا ہی نہیں

وہ ایک بات جو میں کہہ نہیں سکا تم سے

وہ ایک ربط جو ہم میں کبھی رہا ہی نہیں

مجھے ہے یاد وہ سب جو کبھی ہوا ہی نہیں

اگر یہ حال ہے دل کا تو کوئی سمجھائے

تمہیں ُبھلانا بھی چاہوں تو کس طرح ُبھولوں

کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو

کوئی خواب نہیں ۔۔۔۔

..بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے


بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھي جانے کيسي خوشياں تھيں
تتلي کے پَر نُوچ کے اُچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں ہم بارش کے پاني ميں
اپني ناؤ آپ ڈبويا کرتے تھے

چھوٹے تھے
تو مِکرو فريب بھي چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اِک آنسو بھي رُسوا کر جائے
بچپن ميں جي بھر کے رُويا کرتے تھے
خُوشبو کے اُڑتے ہي کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپني ٹولي ميں
رات کو ماں کي گُود ميں سويا کرتے تھے

..بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے


بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے
تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے
وہ خوشياں بھي جانے کيسي خوشياں تھيں
تتلي کے پَر نُوچ کے اُچھلا کرتے تھے
مار کے پاؤں ہم بارش کے پاني ميں
اپني ناؤ آپ ڈبويا کرتے تھے

چھوٹے تھے
تو مِکرو فريب بھي چھوٹے تھے
دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے
اب تو اِک آنسو بھي رُسوا کر جائے
بچپن ميں جي بھر کے رُويا کرتے تھے
خُوشبو کے اُڑتے ہي کيوں مرجھايا پھول
کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے
کھيل کود کے دن بھر اپني ٹولي ميں
رات کو ماں کي گُود ميں سويا کرتے تھے

...شرط

میرا جسم آئینہ خانہ ٹھہرے
میری جانب کوئی دیکھے تو سہی

اُس کے سب جھوٹ بھی سچ ہیں محسن
شرط اتنی ہے وہ بولے تو سہی

.....کوئی تو ہوتا

کوئی تو ہوتا

میں جسکے

دل کی کتاب بناتا

میں جسکی

چاہت کا خواب بناتا

میں ہجر کے

موسم کی لمبی

راتوں میں

یاد بن کر

عذاب بناتا

کوئی تو ہوتا

جو میری

خواہشوں میں

اٹھ کے راتوں کو

خوب روتا

دکھوں کی

چادر لپیٹ کر

ہجوم دنیا

سے دور ہوتا

میں روٹھ جاتا

مناتا مجھ کو

کہ چاہے میرا

قصور ہوتا

کوئی تو ہوتا

کوئی تو ہوتا

میں جسکا تنہا

حبیب ہوتا

یہ سلسلہ بھی

عجیب ہوتا

کوئی تو ہوتا

کوئی تو ہوتا