تُو بتا اے دلِ بے تاب کہاں آتے ہیں
ہم کو خوش رہنے کے آداب کہاں آتے ہیں
میں تو یک مُشت اُسے سونپ دوں سب کُچھ لیکن
ایک مٹھی میں میرے خواب کہاں آتے ہیں
مدتوں بعد تُجھے دیکھ کے دل بھر آیا
ورنہ صحراؤں میں سیلاب کہاں آتے ہیں
ہم کس طرح تیرے در پہ ٹھکانہ کر لیں
ہم فقیروں کو یہ آداب کہاں آتے ہیں
سر بسر جن میں فقط تیری جھلک ملتی ہے
اب میسر ہمیں وہ خواب کہاں آتے ہیں
No comments:
Post a Comment