تاریکیاں الجھتی ہیں وہم و گمان سے
سورج اتارنا ہے مجھے آسمان سے
قسمت نے پھر سے پاؤں میں رستے بِچھا دیے
میں چُور چُور تھا ابھی پِچھلی تھکان سے
خوشبو کو اپنی سانس کی ڈوری میں باندھ کر
ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں تیرے مکان سے
گم سم کھڑا ہوں تیرے تصور کی دھوپ میں
جیسے گزر رہا ہو کوئی اپنی جان سے
عرفان بال و پر میرے کُھلنے کی دیر تھی
ڈرنے لگے ہیں آسماں، میری اڑان سے
No comments:
Post a Comment