Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Saturday, November 24, 2012

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا

وہ زود رنج منانے بھی تو نہیں دیتا
جو دل پہ گزری، بتانے بھی تو نہیں دیتا

گو اس نے خار بچھائے نہیں ہیں رستے میں
مگر وہ اُن کو ہٹانے بھی تو نہیں دیتا

یہ زخم اُس نے لگائے نہیں مگر سوچو
وہ ان کے داغ مٹانے بھی تو نہیں دیتا

دھیان اُس کا ہٹے بھی تو کس طرح سے ہٹے
وہ اپنی یاد بُھلانے بھی تو نہیں دیتا

پیام آئے کبھی اُس کا یہ نہیں ممکن
دل اُس کے شہر کو جانے بھی تو نہیں دیتا

وہ تیرگی کا مخالف بنا تو ہے لیکن
چراغ گھر میں جلانے بھی تو نہیں دیتا

اُسی کی ذات کا ہر پل طواف کرتے ہیں
دل ہم کو اور ٹھکانے بھی تو نہیں دیتا

جو ہم پہ شرک کے فتوے لگا رہا ہے بتول!
وہ در سے سر کو اٹھانے بھی تو نہیں دیتا

فاخرہ بتول

دنیاکی طلب نہیں مگر یہ حسرت ہے ہماری


میری آنکھوں میں اتر آئو، انہں سمندر کر دو
کچھ دیر ہی سہی محبت کی نظر کر دو

ٹوٹ کے ملو کہ ارمان نہ رہ جائے کوئی
یوں محبت کے ہر لمحے کو امر کر دو

ہم پہ نہ آئے کوئی قیامت سا وقت
بڑی مشکل ہے جدائی اسے مختصر کر دو

جن کے نور سےمل جائے بینائی ہمیں بھی
اپنے خوابوں کو میری آنکھوں کی نظر کر دو

دنیاکی طلب نہیں مگر یہ حسرت ہے ہماری
اپنی بانہوں میں لو،دنیا سے بے خبر کر دو

ہم نے چاہا بس اک شخص ہمارا ہوتا


شام کو پرندوں کی طرح لوٹ آتے ہم
منتظر اگر کوئی ہمارا ہوتا
چاند تاروں کی طلب کسے تھی
بس روشنی کے لئیے اک ستارہ ہوتا
ہم میں شائد کوئی کمی تھی ورنہ
ضرور کوئی طرفدار ہمارا ہوتا
دنیا کے لوگوں کی تمنا کسے تھی
ہم نے چاہا بس اک شخص ہمارا ہوتا

کوئی کسی کا نہیں بنتا اس دنیا میں

ہم نے یاد کیا بہت اسے بھلانے کے بعد
وہ پھر روٹھ گیا مجھ سے منانے کے بعد

اس کے دل میں تھی عداوت میرے لئے
میں تو خوش تھا اسے پانے کے بعد

پہلے تو کرتا تھا بہت پیار کی باتیں
پھر رلایا بھی بہت اس نے مجھے ہنسانے کے بعد

محبت کرتا تھا وہ مجھ سے وقت گزاری کے لئے
اپنا لیا کسی اور کو اس نے مجھے ٹھکرانے کے بعد

کوئی کسی کا نہیں بنتا اس دنیا میں
درخت بھی گرا دیتے ہیں پتے سوکھ جانے کے بعد


کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ

کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ 
کب اتنی ادا شناس تھی وہ 

ہر خواب سے بے طرح ہراساں
ہر خواب کے آس پاس تھی وہ

سرشاری شوق و بے نیازی
ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ

پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں
اور سرد و سمن کی آس تھی وہ

جیسے شب ہجر کی سحر ہو
کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ

چھیڑی تھی ادا نے آب بیتی
یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ

آنکھوں آنکھوں میں یہ ان سے رابطہ اچھا لگا

آنکھوں آنکھوں میں یہ ان سے رابطہ اچھا لگا
اس طرح سے گفتگو کا سلسلہ اچھا لگا


آنکھ میں آنسو لبوں پر سسکیاں اور دل میں غم
مجھ کو پھر اے دوست تیرا روٹھنا اچھا لگا


یہ بھی اچھا ہے نبھائی غیر سے اس نے وفا
بے وفائی میں بھی مجھ کو بے وفا اچھا لگا


دور تک مجھ کو ادا اسکی نشہ دیتی رہی
وقت رخصت اس کا مڑ کے دیکھنا اچھا لگا


اس نے ٹھکرایا تو سارے دوست بیگانے ہوئے
ہم کو اپنی موت کا پھر آسرا اچھا لگا


اپنے آنچل پر سجاتے وہ رہے رات بھر
میرے اشکوں کا رواں یہ سلسلہ اچھا لگا


وہ کسی کی یاد میں سوئے نہیں رات بھر
نیند سی بوجھل سی آنکھوں میں نشہ اچھا لگا


مجھ کو ہر ٹکڑے میں ناصر وہ نظر آنے لگے
ٹوٹ کر مجھ کو جب ہی تو آئینہ اچھا لگا

جارہے ہو اگردور مجھ سے صنم


جارہے ہو اگردور مجھ سے صنم
پھرمیرے پاس آنا نہیں
یہ بھی ممکن نہیں کہ میں پلٹ نہ سکوں
اس لیے اتنا وعدہ کرومجھ کو آواز دینا نہیں
مل بھی جائیں اگرہم تمہیں اگر راہ میں
پھیر لینا نظرپر ملانا نہیں
دیکھ لو بھی اگرتم ہمیں بھول سے
اپنی آنکھوں میں تم اشک لانا نہیں
دل سے تو کو تم کر چکے ہو جدا
آنکھ سے بھی گرانا نپہں
تم نے مانگی دعاہمیں ملے ہر خوشی
تم ہی میری خوشی پر ملے کیوں نہ ہمیں
تم نے لی ہے قسم غم نہ کرنا کبھی
تم سکھا دو ذرا مسکرانا ہمیں
تم نے کہہ تو دیا یاد کرنا نہیں
خواب میں تم بھی آنا نہیں

مجھے تم یاد آتے ہو



مجھے تم یاد آتے ہو
خیالوں میں
سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہیں آواز دیتا ہوں
تمہیں واپس بلاتا ہوں
جب کوئی نظم کہتا ہوں
اسے عنوان دیتا ہوں
مجھے تم یاد آتے ہو
تمہاری یاد ہونے سے
کوئی سرگوشی کرتا ہے
یہ پلکیں بھیگ جاتی ہیں
دو آنسو ٹوٹ گرتے ہیں
میں پلکوں کو جھکاتا ہوں
بظاہر مسکراتا ہوں
فقط اتنا ہی کہتا ہوں
مجھے کتنا ستاتے ہو
۔
۔
مجھے کیوں یاد آتے ہو
مجھے کیوں یاد آتے ہو

Thursday, November 15, 2012

اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو


شمعِ غزل کی لَو بن جائے، ایسا مصرعہ ہو تو کہو
اِک اِک حرف میں سوچ کی خوشبو، دل کا اُجالا ہو تو کہو

رازِ محبت کہنے والے لوگ تو لاکھوں ملتے ہیں
رازِ محبت رکھنے والا، ہم سا دیکھا ہو تو کہو!

کون گواہی دے گا اُٹھ کر جھوٹوں کی اس بستی میں
سچ کی قیمت دے سکنے کا تم میں یارا ہو تو کہو!

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے
ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

امجد صاحب آپ نے بھی تو دُنیا گھوم کے دیکھی ہے
ایسی آنکھیں ہیں تو بتاؤ! ایسا چہرا ہو تو کہو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے
کوئی ایک لفظ تو ایسا ھو کہ قرار ھو
کہیں ایسی رت بھی ملے ھمیں جو بہار ھو
کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ھمیں پیار ھو!

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔
کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں
کائی غم ھو جس كو كہا کریں غمِ جاوداں
کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو
میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ھو
میں سفر میں ھوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ھو
مجھے شوق ھے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ھو
!غمِ ھجر ھو، شبِ تار ھو، بڑا طول ھو۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ھو
کہ جو عکسِ ذات ھو، ھو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو
کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو
!سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے

ہم اہلِ دل کو بڑے ____حوصلوں میں چھوڑ آئے

ہمارے بعد بھی ____رونق رہے گی مقتل میں
ہم اہلِ دل کو بڑے ____حوصلوں میں چھوڑ آئے

سدا سکھی رہیں چہرے وہ ہم جنہیں ‘محسن‘
بجھے گھروں کی کھلی کھڑکیوں میں چھوڑ آئے

محسن نقوی!

سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں


اِک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتر گیا ہوں میں

کیسے اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سُن رہا ہوں کہ گھر گیا ہوں میں

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں

وہی ناز و ادا ، وہی غمزے
سر بہ سر آپ پر گیا ہوں میں

جون ایلیا

اس کو اتنا بھی نہ چاہو کہ خدا ہو جائے

اس کی ہر بات مرے دل کو روا ہو جائے
وہ مگر اپنی انا سے تو رہا ہو جائے

بات ہم دل کی چھپائیں گے نہیں اب ہرگز
کوئی ہوتا ہے خفا گر تو خفا ہو جائے

جتنے ممکن تھے جتن ہم نے کئے ہیں لیکن
وہ جدائی پہ مصر ہے تو جدا ہو جائے

پھر سے سیراب کرے روح مری ، پیار ترا
دل کے صحراؤں پہ ساون کی گھٹا ہو جائے

ہم نے سوچا تھا تجھے بھول کے جینے کا مگر
دل کی مرضی ہے ترے غم میں فنا ہو جائے

ہم ترے غم سے تعلق کو نبھائیں گے سدا
چاہےاب ہم کو یہ جینا بھی سزا ہو جائے

ہم ترے حکم کو تسلیم کیئے لیتے ہیں
اس سے پہلے کہ کوئی اور خطا ہو جائے

کچھ تو کلثوم توازن بھی محبت میں رہے
اس کو اتنا بھی نہ چاہو کہ خدا ہو جائے

Tuesday, July 17, 2012

دل منافق تھا، شب ِ ھجر میں سویا کیسے

دل منافق تھا، شب ِ ھجر میں سویا کیسے
اور جب تجھ سے ملا، ٹوٹ کے رویا کیسے

زندگی میں بھی غزل کا ہی قرینہ رکھا
خواب در خواب تیرے غم کو پرویا کیسے

اب تو چہروں پہ بھی کتبوں کا گماں ھوتا ھے
آنکھیں پتھرائی ھوئی ھیں لب ِ گویا کیسے

دیکھ اب قرب کا موسم بھی نہ سر سبز لگے
ھجر ھی ھجر مراسم میں سمویا کیسے

ایک آنسو تھا کہ دریائے ندامت تھا فراز
دل سے بے باک شناور کو ڈبویا کیسے

...اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے
اے شام دُکھ دیا ہے تو پھر حوصلہ بھی دے

چبھتے ہیں اب تو اشک بھی رہ رہ کے آنکھ میں
موجِ ہوائے شب یہ چراغاں بجا بھی دے

کیا قہر ہے فلک کا ستم بھی زمیں پہ ہو
گرنے لگے فلک تو زمیں آسرا بھی دے

مجھ کو تو حرفِ حق کی طلب تھی سو پا لیا
میں نے یہ کب کہا تھا مجھے کربلا بھی دے

اب کچھ تو کم ہو دِل زدگاں کی فسردگی
اے درد رات ڈھلنے لگی مُسکرا بھی دے

ہر فرد ابتدا کی مسافت میں شل ہُوا
کوئی تو ہو جو اب خبرِ انتہا بھی دے

کب تک ہنسے گی تجھ پہ یہ محرومیوں کی شام؟
وہ شخص بے وفا تھا اُسے اب بھلا بھی دے

"محسن" سا اہلِ دِل تو دِکھا اپنے شہر میں
"محسن" تو ہنس کے زخم بھی کھائے دُعا بھی دے

بُت کدے جا کے کسی بت کو بھی سجدہ کرتے

بُت کدے جا کے کسی بت کو بھی سجدہ کرتے
ہم کہاں سوچ بھی سکتے تھے کے ایسا کرتے

عمر بھر کچھ بھی تو اپنے لیے ہم نے کیا!
آج فرصت جو ملی ہم کو تو سوچا، کرتے

ہم تو اس کھیل کا حصہ تھے ازل سے شاید
سو تماشہ جو نہ بنتے تو تماشہ کرتے

دل کو تسکین ہی مل جاتی ذرا سی اس سے
نہ نبھاتے چلو تم کوئی تو وعدہ کرتے

جوڑنے میں تو یہ پوریں بھی لہو کر ڈالیں
کرچیوں کو جو نہ چھوتے تو یہ اچھا کرتے

بھول جانے کا ارادہ بھی ارادہ ہی رہا
جان پر بن ہی تو جاتی جو ہم ایسا کرتے

اس اماوس نے کیے قتل کئی چاند بتول
ہم اُجالے کی کہاں اِس سے تمنا کرتے

وہ چاند

وہ چاند کہ روشن تھا سینوں میں نگاہوں میں
لگتا ہے اداسی کا اک بڑھتا ہوا ہالہ
پوشاکِ تمنا کو
آزادی کے خلعت کو
افسوس کہ یاروں نے
الجھے ہوئے دھاگوں کا اک ڈھیر بنا ڈالا
وہ شور ہے لمحوں کا، وہ گھور اندھیرا ہے
تصویر نہیں بنتی، آواز نہیں آتی
کچھ زور نہیں چلتا، کچھ پیش نہیں جاتی
اظہار کو ڈستی ہے ہر روز نئی اُلجھن
احساس پہ لگتا ہے ہر شام نیا تالہ
ہے کوئی دل بینا، ہے کوئی نظر والا.. !

امجد اسلام امجد

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ
دکھ سے بھر پور دن تمام ہوئے
اور کل کی خبر کسے معلوم
دوش و فردا کی مٹ چکی ہیں حدود
ہو نہ ہو اب سحر، کسے معلوم؟
زندگی ہیچ! لیکن آج کی رات
ایزدیت ہے ممکن آج کی رات
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ

اب نہ دہرا فسانہ ہائے الم
اپنی قسمت پہ سوگوار نہ ہو
فکرِ فردا اتار دے دل سے
عمر رفتہ پہ اشکبار نہ ہو
عہدِ غم کی حکایتیں مت پوچھ
ہو چکیں سب شکایتیں مت پوچھ
آج کی رات سازِ درد نہ چھیڑ !

فیض احمد فیض

شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے


شعوُر میں، کبھی احساس میں بساؤں اُسے
مگر مَیں چار طرف بے حجاب پاؤں اُسے

اگرچہ فرطِ حیا سے نظر نہ آؤں اُسے
وہ رُوٹھ جائے تو سو طرح سے مناؤں اُسے

طویل ہجر کا یہ جبر ہے، کہ سوچتا ہوں
جو دل میں بستا ہے، اب ہاتھ بھی لگاؤں اُسے

اُسے بلا کے مِلا عُمر بھر کا سناّٹا
مگر یہ شوق، کہ اِک بار پھر بلاؤں اُسے

اندھیری رات میں جب راستہ نہیں مِلتا
مَیں سوچتا ہوں، کہاں جا کے ڈھوُنڈ لاؤں اُسے

ابھی تک اس کا تصوّر تو میرے بس میں ہے
وہ دوست ہے، تو خدا کِس لیے بناؤں اُسے

ندیم ترکِ محبت کو ایک عُمر ہوئی
مَیں اب بھی سوچ رہا ہوں، کہ بُھول جاؤں اُسے

احمد ندیم قاسمی

یہ اگر انتظام ہے ساقی

یہ اگر انتظام ہے ساقی
پھر ہمارا سلام ہے ساقی

آج تو اذن عام ہے
رات رندوں کے نام ہے ساقی

میرے ساغر میں رات اُتری ہے
چاند تاروں کا جام ہے ساقی

ایک آئے گا،ایک جائے گا
مے کدے کا نظام ہے ساقی

جام ٹوٹے ،صراحیاں ٹوٹیں
یہ بھی اک قتل عام ہے ساقی

تیرے ہاتھوں سے پی رہاہوں شراب
مے کدہ میرے نام ہے ساقی

(بشیر بدر)

....اک یاد

اک یاد قدیمی گلیوں میں
اک درد پرانا رستے میں
اک رنگ انوکھا کلیوں میں
اک پھول عجب گل دستے میں
اک گیت نباتی پتوں پر
اک بیل ستوں سے لپٹی ہے
اک صبح ازل سے چمکی ہے
اک شام ابد تک ٹھہری ہے
اک چاند رکا ہے کھڑکی پر
اک رات بہت ہی گہری ہے
اک دشت کا سینہ چھلنی ہے
اک ہاتھ پڑا ہے خنجر پر
اک زخم لگا ہے مٹی کو
اک سبز ردا سی بنجر پر
اک ہار گلابی بانہوں کا
اک برگد بوڑھی صدیوں کا
اک برزخ دھندلے خوابوں کا
اک عالم جاگتی نیندوں کا
اک عمر کا سارا قصہ ہے
دکھ درد خوشی کا حصہ ہے

(نصیر احمد ناصر)

...روح تک نمی نہیں آتی

روح تک نمی نہیں آتی
آگے پیچھے دائیں بائیں
صحرا، خاموشی کا بے انت صحرا
منہ چڑاتی ہوئی
آنکھوں اور سانسوں میں
بھری ہوئی بےچارگی۔۔۔ آگے پیچے دائیں بائیں
کچھ کہنا ہے
کچھ کہنا ہے مگر لفظ نہیں ہیں
درد بہانا ہے
درد بہانا ہے بنجر دل کی زمیں
آنکھ تک نمی نہیں آنے دیتی
دل کی پتھریلی زمیں پر
اُمیدیں خواہشیں اوندے منہ پڑی ہیں
زندگی جیسے
دھوپ کی شدّت سے جُھلسی کوئی ٹوٹی شاخ
کوئی راکھ۔۔ بے انت بکھری ہوئی
کوئی ٹوٹا پیالہ۔۔ کوئی ٹوٹا پیالہ۔۔۔۔۔

Naheed Virk

Tuesday, June 26, 2012

بیاکل روگ

بیاکل روگ کیسا تھا ؟
انوکھا جوگ جیسا تھا؟
نہیں پل بھر رہا قائم
وہ اِک سنجوگ کیسا تھا؟
سمندر میں کسی تنہا جزیرے کی طرح شاید
ادُھورے خواب کی مانند ،
کسی بھی چاند کی مژگاں پہ چمکا تھا ،
ستارے کی طرح پَل بھر
گُلابی پتیوں پر اوس کی بُوندوں کی صُورت میں
مگر جاناں ! ذرا سوچو
تمہیں کیسے بتاؤ میں ،
وہ دل کا روگ کیسا تھا

سفر


آپ سے تم تک کا سفر
تم سے تو تک کا سفر
آنکھ سے دل تک کا سفر
عقل سے عشق تک کا سفر
خاک کا خاک تک کا سفر
فرش سے عرش تک کا سفر
مختصر بھی ہے اور طویل بھی
جسے عکس عکس گنوا دیا
کبھی روبرو تھی میرے لیے
جسے نقش نقش بجھا دیا
کبھی چار سو تھی میرے لیے
جو حد ہوا سے دور ہے
کبھی کوبکو تھی میرے لیے
جو تپش ہے موج سراب کی
کبھی آب جو تھی میرے لیے
جسے "آپ"‏ لکھتا ہوں خط میں اب
کبھی صرف "تو" تھی میرے لیے

نا مُمکن


ایسے تیز ہوا میں پیارے
بڑے بڑے منہ زور دیے بھی کم جلتے ہیں
لیکن جلتے ہیں اور ہمارے
ساتھ تمہارے غم جلتے ہیں
دل کے آتش دان میں
شب بھر
تیری یاد کا ایندھن بن کر
ہم جلتے ہیں

یاد

سائڈ ٹیبل پہ چائے کا کپ ۔ ۔
ہاتھ میں عشق پہ لکھی گئی ایک داستاں کی کتاب
اور دل یہ بھی چاہے کہ چھت پہ جا کے ۔ ۔
رات کی تنہائی ۔ ۔
چاند کی اداسی ۔ ۔
۔ ۔ اور لمحوں کی بےبسی کو
اپنے اندر اتار کے ۔ ۔
خود کو عشقِ لاحاصل میں قید کر لیا جائے
اور ایسے میں کسی کی یاد نہ آئے

دل دکھتا ہے

زندگی کی راہوں میں
زندگی بھٹکتی ہے
بچھڑتے رستوں میں کہاں
منزلیں پنپتی ہیں
اک آغوش ہے جیون
اس آغوش کا بچہ
درد کی حرارت سے
اس پگھلتا ہے
بھاپ بن کر اڑاتا ہے
خود کو جوڑنے کے لیے
سرحدوں کو چھو کر وہ
اس طرح پھر لوٹے گا
دنیا کے فسانوں میں
پھر سے کھو جائے گا
اک آغوش ہے جیون
اس آغوش کا بچہ
اک تلاش کا ساتھی
روتے روتے ہنس دے گا
اور خود سے پوچھے گا
زندگی کی حقیقت کو
کون جان پایا ہے
جس نے اس کو کھوجا ہے
اس نے خود کو کھویا ہے



دل دکھتا ہے

آباد گھروں سے دور کہیں
جب بنجر بن میں آگ جلے
پردیس کی بوجھل راہوں میں
جب شام ڈھلے
جب رات کا قاتل سناٹا پر ہول ہوا کے وہم لیے
قدموں کی چاپ ساتھ چلے
جب وقت کا نابینا جوگی
کچھ ہنستے ہنستے چہروں پر ، بے درد رتوں کی راکھ ملے
جب شہ رگ میں محرومی کا نشتر ٹوٹے
جب ہاتھ سے ریشم رشتوں کا دامن چھوٹے
جب تنہائی کے پہلو سے
انجانے درد کی لے پھوٹے
جب زرد رتوں کے سائے میں پھول کھیلیں
جب زخم دہکنے والے ہیں
اور خوشیوں کے پیغام ملیں
اپنے دریدہ دامن کے جب
چاک سلیں
جب آنکھوں خود سے خواب بنیں
خوابوں میں بسے چہروں کی جب بھیڑ لگے
اس بھیڑ میں جب تم کھو جاؤ
جب حبس بڑھے تنہائی کا
جب خواب جلیں
جب آنکھ بجھے
تم یاد آؤ
دل دکھتا ہے
دل دکھتا ہے

آخری بار ملو


آخری بار ملو ایسے کہ جلتے ہوئے دل
راکھ ہوجائیں ، کوئی اور تقاضا نہ کریں
چاک وعدہ نہ سلے ،زخم تمنا نہ کھلے
سانس ہموار رہے شمع کی لو تک نہ ہلے
باتیں بس اتنی کہ لمحے انہیں آکر گن جائیں
آنکھ اٹھائے کوئی امید تو آنکھیں چھن جائیں
اس ملاقات کا اس بار کوئی وہم نہیں
جس سے اک اور ملاقات کی صورت نکلے
اب نہ ہیجان و جنوں کا ، نہ حکایات کا وقت
اب نہ تجدید وفا کا ، نہ شکایات کا وقت
لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ
اب جو کہنا ہے تو کیسے کوئی نوح کہیے
آج تک تم سے رگ جاں کے کئی رشتے تھے
کل سے جو ہوگا اسے کون سا رشتہ کہیے
پھر نہ دہکیں گے کبھی عارض و رخسار ، ملو
ماتمی ہیں دم رخصت درو دیوار ، ملو
پھر نہ ہم ہوں گے ، نہ اقرار نہ انکار ، ملو
آخری بار ملو

بس آخری بار ملو

Monday, June 25, 2012

میں ایسی محبت کرتا ہوں

میں ایسی محبت کرتا ہوں
ناکام نہیں ناشاد نہیں
میں قیس نہیں فرہاد نہیں
پُنّوں بھی نہیں رانجھا بھی نہیں
وامق بھی نہیں مرزا بھی نہیں
وہ لوگ تو بس افسانہ تھے
اِس شدّت سے بیگانہ تھے
میں زندہ ایک حقیقت ہوں
سرتاپا جذبہ اُلفت ہوں
میں تم کو دیکھ کے جیتا ہوں
ہر لمحہ تم پہ مرتا ہوں

میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
”تم جہاں پہ بیٹھ کے جاتے ہو
جس چیز کو ہاتھ لگاتے ہو
میں وہیں پہ بیٹھا رہتا ہوں
اس چیز کو چُھوتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
تم جس سے ہنس کے ملتے ہو
میں اس کو دوست بناتا ہوں
تم جس رستے پر چلتے ہو
میں اس سے آتا جاتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
تم جن کو دیکھتے رہتے ہو
وہ خواب سرہانے رکھتا ہوں
میںتم سے ملنے جلنے کے
کتنے ہی بہانے رکھتا ہوں
میں ایسی محبت کرتاہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟“
کچھ خواب سجا کر آنکھوں میں
پلکوں سے موتی چُنتا ہوں
کوئی لمس اگر چُھو جائے تو
میں پہروں تم کو سوچتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو
جن لوگوں میں تم رہتے ہو
تم جن سے باتیں کرتے ہو
جو تم سے ہنس کے ملتے ہیں
جو تم کو اچھے لگتے ہیں
وہی مجھ کو اچھے لگتے ہیں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
جس باغ میں صبح کو جاتے ہو
جس سبزے پر تم چلتے ہو
جو شاخ تمھیں چُھو جاتی ہے
جو خوشبو تم کو بھاتی ہے
وہ اوس تمھارے چہرے پر
جو قطرہ قطرہ گرتی ہے
وہ تتلی چھوڑ کے پھولوں کو
جو تم سے ملنے آتی ہے
جو تم کو چھونے آتی ہے
ان سب کے نازک جذبوں میں
مِرے دل کی دھڑکن بستی ہے
مِری روح بھی شامل رہتی ہے
تم پاس رہو یا دُور رہو
نظروں میں سمائے رہتے ہو
میں تم کو تکتا رہتا ہوں
میں تم کو سوچتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟
جس کالج میں تم پڑھتے ہو
میں اس میں لیکچر دیتا ہوں
وہ کلاس جہاں تم ہوتے ہو
میں اس کو تکتا رہتا ہوں
جس کرسی پہ تم بیٹھتے ہو
میں اس کو چُھوتا رہتا ہوں
جو کاپی تم نے گم کی تھی
میں اپنے بیگ میں رکھتا ہوں
گدلا سا ایک ٹشو پیپر
جو تم نے کلاس میں چھوڑا تھا
وہ میرے پرس میں رہتا ہے
وہ میرے لمس میں رہتا ہے
وہ مخمل ہے وہ دیبا ہے
وہ چاندی ہے وہ سونا ہے
وہ عنبر ہے وہ صندل ہے
وہ خوشبو کا اِک جنگل ہے
ہر منظر میں ہر رستے پر
میں ساتھ تمھارے ہوتا ہوں
میں چشمِ تصور سے اکثر
بس تم کو دیکھتا رہتا ہوں
بس تم کو سوچتا رہتا ہوں
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتے ہو؟

اور میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں

میں خواب بہت دیکھتا ہوں
ایسے خواب!
جن میں کوئی دکھ‘ کوئی پریشانی نہیں ہوتی
جن میں وصل کے رستے ہجر کی وادی سے ہو کر نہیں گزرتے
جن میں محبت ہمیشہ ادھ کھلے پھول کی طرح خوبصورت
اور بچے کی مسکان کی طرح پاکیزہ ہوتی ہے
ایسے خواب!
جہاں ایک مسکراہٹ کی قیمت ہزار آنسو نہیں ہوتے
میری پلکوں کی شاخوں پر کئی ایسے خواب بیٹھے رہتے ہیں
اُن کی گنگناہٹ مجھے جینے پہ اکساتی ہے
نئے راستوں کی اور لے کر چلتی ہے
نئی منزلوں کا پتا بتاتی ہے
مجھے اپنے خوابوں سے محبت ہے
اُن خوابوں میں رہنے والے ایک ایک شخص سے محبت ہے
اُن خوابوں میں دِکھنے والی ایک ایک شئے سے محبت ہے
کہ یہ سب میرا ہے‘ صرف میرا
میرے خواب میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا
جب تک کہ میں نہ انہیں دکھانا چاہوں
کوئی انہیں میری آنکھوں سے چرا نہیں سکتا
جب تک کہ میں خود نہ کسی کی آنکھوں میں سجا دوں
میرے خوابو!
آج میں یہ اقرار کرتا ہوں!
کہ میں تم میں زندہ ہوں
یہ سچ ہے کہ مجھے اِن آنسوؤں سے ڈر نہیں لگتا
مگر پھر بھی میں شاید اِس لئے رونے سے ڈرتا ہوں
کہ اِن آنکھوں میں تم رہتے ہو
تمہارا ہونا میرا ہونا ہے
اور میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں

اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم، تُو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا
چہروں سے بہارِ صبح گئی، آنکھوں سے فروغِ شام گیا
ہاتھوں سے خوشی کا جام چُھٹا، ہونٹوں سے ہنسی کا نام گیا
غمگیں نہ بنا، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے ہیں، رو رو کے دعائیں کر تے ہیں
آنکھوں میں تصور، دل میں خلش، سر دُھنتے ہیں آہیں بھرتے ہیں
اے عشق، یہ کیسا روگ لگا، جیتے ہیں نہ ظالم مرتے ہیں
یہ ظلم تو اے جلاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
یہ روگ لگا ہے جب سے ہمیں، رنجیدہ ہوں میں بیمار ہے وہ
ہر وقت تپش، ہر وقت خلِش، بے خواب ہوں میں، بیدار ہے وہ
جینے سے ادھر بیزار ہوں میں، مرنے پہ اُدھر تیار ہے وہ
اور ضبط کہے فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے بندھا ہے دھیان ترا، گھبرائے ہوئے سے رہتے ہیں
ہر وقت تصور کر کر کے شرمائے ہوئے سے رہتے ہیں
کمہلائے ہوئے پھولوں کی طرح کمہلائے ہوئے سے رہتے ہیں
پامال نہ کر، برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
بے درد، ذرا انصاف تو کر، اس عمر میں اور مغموم ہے وہ
پھولوں کی طرح نازک ہے ابھی، تاروں کی طرح معصوم ہے وہ
یہ حسن، ستم، یہ رنج، غضب، مجبور ہوں میں، مظلوم ہے وہ
مظلوم پہ یوں بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اے عشق خدارا دیکھ کہیں، وہ شوخ حزیں بدنام نہ ہو
وہ ماہ لقا بدنام نہ ہو، وہ زہرہ جبیں بدنام نہ ہو
ناموس کا اس کے پاس رہے، وہ پردہ نشیں بدنام نہ ہو
اس پردہ نشیں کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
امید کی جھوٹی جنت کے، رہ رہ کے نہ دِکھلا خواب ہمیں
آئندہ کی فرضی عشرت کے، وعدوں سے نہ کر بے تاب ہمیں
کہتا ہے زمانہ جس کو خوشی، آتی ہے نظر کمیاب ہمیں
چھوڑ ایسی خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
کیا سمجھے تھےاور تو کیا نکلا، یہ سوچ کے ہی حیران ہیں ہم
ہے پہلے پہل کا تجربہ اور کم عمر ہیں ہم، انجان ہیں ہم
اے عشق، خدارا رحم و کرم، معصوم ہیں ہم، نادان ہیں ہم
نادان ہیں ہم، ناشاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
وہ راز ہے یہ غم آہ جسے، پا جائے کوئی تو خیر نہیں
آنکھوں سےجب آنسو بہتے ہیں، آ جائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا، دل کو یہاں، بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
ہے ظلم مگر فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دو دن ہی میں عہدِ طفلی کے، معصوم زمانے بُھول گئے
آنکھوں سےوہ خوشیاں مِٹ سی گئیں، لب کو وہ ترانے بُھول گئے
ان پاک بہشتی خوابوں کے، دلچسپ فسانے بُھول گئے
ان خوابوں سے یوں آزاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
اس جانِ حیا کا بس نہیں کچھ، بے بس ہے پرائے، بس میں ہے
بے درد دلوں کو کیا ہے خبر، جو پیار یہاں آپس میں ہے
ہے بے بسی زہر اور پیار ہے رس، یہ زہر چھپا اس رس میں ہے
کہتی ہے حیا فریاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
آنکھوں کو یہ کیا آزار ہوا، ہر جذبِ نہاں پر رو دینا
آہنگِ طرب پر جُھک جانا، آواز فغاں پر رو دینا
بربط کی صدا پر رو دینا، مُطرب کے بیاں پر رو دینا
احساس کو غم بنیاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
ہر دم ابدی راحت کا سماں دِکھلا کے ہمیں دلگیر نہ کر
للہ، حبابِ آبِ رواں پر نقش بقا تحریر نہ کر
مایوسی کے رمتے بادل پر امید کے گھر تعمیر نہ کر
تعمیر نہ کر، آباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جی چاہتا ہے اِک دوسرے کو یوں آٹھ پہر ہم یاد کریں
آنکھوں میں بسائیں خوابوں کو اور دل میں خیال آباد کریں
خِلوت میں بھی ہوجلوت کا سماں، وحدت کو دوئی سےشاد کریں
یہ آرزوئیں ایجاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
دنیا کا تماشا دیکھ لیا، غمگین سی ہے، بے تاب سی ہے
امید یہاں اِک وہم سی ہے، تسکین یہاں اِک خواب سی ہے
دنیا میں خوشی کا نام نہیں، دنیا میں خوشی نایاب سی ہے
دنیا میں خوشی کو یاد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر

اختر شیرانی

نہیں معلوم تھا ہمارے رشتے کا یہ انجام ہو گا

نہیں معلوم تھا ہمارے رشتے کا یہ انجام ہو گا
تو میرا نہیں رہے گا کسی اور کے نام ہو گا

تنہائی مقدر بن جائے گی خاموشی اسقدر ہو جائے گی
شام ڈھلتے ہی ہاتھوں میں جام ہو گا

یوں تو تجھ سے بھی حسین چہرے ہیں جیون میں
مگر یہ دل اب نہیں کسی کا غلام ہو گا


کسی نے جو پوچھا سبب اجڑے اجڑے رہنے کا
تیرا نام تک نہ لیا کہ تو بدنام ہو گا

لاکھ کوشش کی کہ تجھے بھلا دوں کسی صورت
پر اب تو شاید مر کر ہی یہ قصہ تمام ہو گا

میں نے جسے چاہنا تھا چاہ لیا عمر بھر کیلئے
میرا پیار اگر کوئی پانا چاہے گا وہ ناکام ہو گا

جس سے بچھڑے مدت ہوئی میں آج بھی ا’سی کا ہوں
ذرا سوچو میرے دل میں اسکا کیا مقام ہو گا

وہ میرا نہیں نہ سہی یہ لفظ تو میرے ہیں
ان میں تو اس کا ذکر صبح و شام ہو گا

ٓآج اس سے جدا ہوئے اک اور برس بیت گیا
چلو میخانے چلتے ہیں وہیں پہ اہتمام ہو گا

بھٹکتا رہوں گا در بہ در کبھی اس ڈگر کبھی اس ڈگر
وفا کے رستے کا بھلا کہاں اختتام ہو گا

مدت بعد اسنے پھر پکار ا ہے مجھے ہمایوں
سوچتا ہوں بھلا اب اسے مجھ سے کیا کام ہو گا

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تم جیسی محبت کرتے ہو ........ نازسلوش ذشے

تم جیسی محبت کرتے ہو
میں تم سے کہنا چاہتی ہوں
میں تم کو بتانا چاہتی ہوں
میں تم بن رہ نہیں سکتی
میں تم بن جی نہیں سکتی
میں تم کو پانا چاہتی ہوں
میں تم کو کھو نہیں سکتی
میرے دل کے نہاں خانوں میں
اک تیری ہی رہتی مورت ہے
میرے بن کے سنگِ آہن پر
اک تم ہی تم تو رہتے ہو
میرے سپنوں میں میرے خوابوں میں
میرے سُر ، سنگیت، خوابوں میں
میرے سوکھے پھولوں کی خوشبو تم
جیسے بچھڑے خط کتابوں میں
میں تم سے کیسے کہہ دوں جاناں
میں تم پر جی جان سے مرتی ہوں
میں اپنے ہر دکھ سکھ میں
صرف تم کو شریک کرتی ہوں
میں تم سے کیسے اظہار کروں؟
میں تو اک لڑکی ہوں نا
سمجھو تو پھر کہتی ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

مجھے بارش ذرا بھی نہیں بھاتی
مجھے اُلجھن ہونے لگتی ہے
یادوں کے زہریلے ناگ
مجھے چپکے چپکے ڈستے ہیں
میں ان سے بچنا چاہتی ہوں
میں ان کو بتانا چاہتی ہوں
میں تم بن بہت ادھوری ہوں
میں تم سے کہنا چاہتی ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

میں سجدوں میں جب جاتی ہوں
مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہتا
بس ہاتھ دعا کو اٹھتے ہیں
تمہیں رب سے مانگا کرتے ہیں
میرے لب پہ اک وردِ مسلسل بن کر
تم چپکے چپکے رہتے ہو
میرے دل میں ٹیسیں اٹھتی ہیں
جب منظور دعا ہو جاتی ہے
تمہیں رب سے مانگنا چاہتی ہوں
میں تم کو بتانا چاہتی ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

جو لوگ تمہارے ساتھی ہیں
جو آج کل تم کو پیارے ہیں
تم جن کے بن جی نہیں سکتے
جو دل میں تمہارے بستے ہیں
میں ان کے لیے دعا گو رہتی ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

میں راتوں کو جب اک آدھ پہر
بستے پر کروٹیں بدلتی ہوں
آنسو سے نکل کر آنکھوں سے
میرے تکیے کو بھگوتے جاتے ہیں
میرے بستر سلوٹ زدہ رہتا ہے
مجھے چین اک پل نہیں آتا
میں آنکھیں کھولوں سامنے تم
میرے بند آنکھوں کے خواب بھی تم
میں رات بھر سسکتی رہتی ہوں
اور خود سے کہتی رہتی ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

مجھے جہاں جہاں کا گمان ہو
کہ تم یہاں سے گزر ے تھے
میں اس جگہ پر جاتی ہوں
جی بھر کے وہاں پر روتی ہوں
تم جس کو ہنس کر دیکھ بھی لو
میں دل میں اس کو بساتی ہوں
میں دوست ان کو بناتی ہوں
میں خواب تمہارے دیکھتی ہوں
اک گھر تمہارا میرا ہے
میں اس کو سجاتی رہتی ہوں
پھر تیار ہو کر میں رستے میں
منتظر تمہاری بیٹھتی ہوں
تاکہ جب تم گھر لوٹو تو
میں دل سے تم کو کہہ دوں جاں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

تم پھول نہیں، خوشبو بھی نہیں
تم خواب نہیں، تعبیر نہیں
تم سُر نہیں، سنگیت نہیں
تم پریم نہیں، پرمیت نہیں
میں تم کو کیا کہوں یارا
تم سب کچھ ہو کر کچھ بھی نہیں
تم جاں بھی میرے، تم روح بھی ہو
میرا یہ جہاں، میرا وہ جہاں
میرا اگلا پچھلا پل بھی تم
میرا گزرا کل میرا آج بھی تم
میرا آنے والا کل بھی تم
مجھے ہر لمحہ تیری یاد رہے
تیری یاد سے دل آباد رہے
میں ہر لمحہ تم کو سوچتی ہوں
او رہر سوچ میں تم سے کہتے ہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

میری غزلوں کے عنوان بھی تم
میری چاہت کے پیمان بھی تم
میں اک اک لفظ میں لکھوں تم کو
میں ہر ہر چیز میں دیکھوں تم کو
میں نے چاہا تمہیں بے انت ہے جاناں
تم سوچو تو سہی تم محسوس تو کرو
کہیں محبت میں میری کمی تو نہیں؟
تم سوچ کے الجھ سے جاؤ گے
پھر یہ الجھن میں سلجھاؤں گی
اورتم کو یہ بتلاؤں گی
تم جیسی محبت کرتے ہوں
میں ویسی محبت کرتی ہوں

تم سُر لکھو، سنگیت لکھو
یا کوئی من کا میت لکھو
تم یاد مجھے یوں رکھ لینا
ہر لَے مجھی پہ لکھنا تم
ہر لفظ میں درد سمو دینا
کہ سننے والے یاد رکھیں
اک ذات تیری، اک ذات مری
پھر گزرے پل کے ساتھ یونہی
تمہیں دل سے یاد رکھوں گی میں
اور تب بھی یہ کہوں گی میں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

اک چاند جو تم جیسا ہے
اک رات کہ جو تم چاہتے تھے
تم بھول چکے ہو سب کچھ پھر بھی
تم آؤ تو ذرا، دیکھو تو سہی
سب تم کو کیسے چاہتے ہیں
اور دیکھو تو ذرا کب بیت گئے
نہ تم کو کچھ معلوم ہوا
نہ میں ہی جان پائی ہوں
اک پل کہ جو گزرتا تھا دشوار کبھی
اک لمحہ جو کبھی صدیوں پر محیط ہوا
کیسے دبے پاؤں سب گزر گئے
پھر بھی میں ان گزرے لمحوں میں
میں ہر لحظہ یہ دہراتی رہی
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

اک بات میں تمکو یاد دلاؤں
وہ عشق جو تھا اک آگ کا دریا
ہم چپکے سے جس میں اترے تھے
اور یاد ہے تم کو بات وہ اپنی
جب آدھی رات کو اٹھ کو ہم
جامن تلے باتیں کرتے ہوئے
اچانک ہنس سے پڑے تھے
تم سرگوشی میں یہ پوچھتے تھے
میں ایسی محبت کرتا ہوں
تم کیسی محبت کرتی ہو
تب ہنستے ہوئے میں کہتی تھی
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

دل درد نہیں، فریاد نہیں
تم درد نہیں، دل پاس نہیں
اس دل میں اب بنا تیرے
میری جاں کوئی آباد نہیں
سب ہیر نہیں
سوہنی بھی نہیں
سسی بھی نہیں
لیلٰی بھی نہیں
میں اپنے آپ میں پکتا ہوں
ملکہ بھی نہیں
شیریں بھی نہیں
تم آؤ تو سہی، ہم دور چلیں
اُس نہر کنارے کسی شام ڈھلے
اک پھول ہو تیرے ہاتھوں میں
وہ پھول سجا دو بالوں میں
میں ہاتھ تمہارا ہاتھوں میں لو
چپکے سے تمہارے کانوں میں کہوں
تم جیسی محبت کرتے ہو
میں ویسی محبت کرتی ہوں

”ہاں انسان تبھی تو روتا ہے“

پوچھا کہ اک بچھڑے تارے نے
اے انسان تو ہی بتا
کہ انسان کب روتا ہے؟
میں اک لمحے کو کھو سی گئی
اور وجوہات کو سوچتی رہی
کوئی اپنا بچھڑ جائے تب؟
کوئی اپنا دکھ دے جائے تب؟
کوئی اپنا نہ اپنائے تب؟
کوئی اپنا بہت یاد آئے تب؟
کوئی اپنا چھوڑ کے جائے تب؟
کوئی اپنا بہت ستائے تب؟
کوئی اپنا کہیں کھو جائے تب؟
کوئی اپنا جاں چھڑائے تب؟
کوئی اپنا کسی کا ہو جائے تب؟
کوئی اپنا دکھ اٹھائے تب؟
کوئی اپنا شدت سے چاہے تب؟
کوئی اپنا دل میں بس جائے تب؟
کوئی اپنا نیند چرائے تب؟
کوئی اپنا دل دکھائے تب؟
کوئی اپنا کہیں مل جائے تب؟
کوئی اپنا آنکھ چرائے تب؟
کوئی اپنا نین ملاتے تب؟
یا کوئی اپنا کہیں مر جائے تب؟
شاید یہی تو وہ باتیں ہیں
جو بیتے دنوں کی یاد میں
آنکھیں نم کر جاتی ہیں
پلکیں بھیگی رہتی ہیں
دل خون کے آنسو روتا ہے
نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے
نہ راتوں کو وہ سوتا ہے
پھر بھی تم یہ پوچھتے ہو
کہ انسان کب روتا ہے؟
”ہاں انسان تبھی تو روتا ہے“

بھلانا تم کو نہیں ہے ممکن

بھلانا تم کو نہیں ہے ممکن
zتمہیں مگر یہ خبر کہاں ہے
کہ چاہتوں کے یہ بیل بوٹے
وبال ہستی کی مثل جاناں
دل و نظر کا قرار بن کر
کہ رت جگوں کا خمار بن کر
فشارِ خوں میں اتر جو جائیں
تو پھر کبھی بھی یہ خواب سارے
یہ قربتوں کے عذاب سارے
حصارِ جاں سے نہیں نکلتے
وفا کی راہوں پہ چلنے والے
وفا کی راہیں نہیں بدلتے
جفا سفر پہ نہیں نکلتے
انا سفر پہ نہیں نکلتے
تمہیں مگر یہ خبر کہاں ہے
کہ تم تو جاناں اسی سفر میں
حصارِ جاں سے نکل چکے ہو
وفا کی راہیں بدل چکے ہو
حیات کو اک سزا بنا کر
جفا سفر پہ نکل چکے ہو
انا سفر پہ نکل چکے ہو
مگر مجھے کچھ گلہ نہیں ہے
مری ہے تم سے یہی گذارش
جو تم سے دل کو لگا چکے ہوں
جو خونِ دل کو جلا چکے ہوں
حسین آنکھوں میں بسنے والے
جو خواب سارے لٹا چکے ہوں
انہی سے جلنا نہیں ہے اچھا
وفا کی راہوں پہ چلنے والے
جفا پہ چلنا نہیں ہے اچھا
انا میں ڈھلنا نہیں ہے اچھا
اگر حقیقت یہ جان جاؤ
کبھی بھی مجھ کو نہ تم ستاؤ
: شاعر
فرمان علی ارمان

آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی

آ ملی شہر سے حد دل کی بیابانی کی
اتنی تعمیر ہوئی ہے میری ویرانی کی


اک جہاں پھیل رہا ہے مرے دل کے اندر
یہ اکٹھی کوئی صُورت ہے پریشانی کی


وُہ خلا ہے کہ سمٹتا ہی نہیں ہے مُجھ سے
ایسی حد پار ہوئی بے سر و سامانی کی


وُہ جو حیرت کے کھلونوں پہ مچل جاتا تھا
میں نے اب تک اُسی بچّے کی نگہبانی کی


آگ سے کھیلتی رہتی تھی جو مٹی میری
اس کو پڑنی تھی ضرورت بھی کبھی پانی کی


میری خواہش پہ الاؤ کوئی روشن تو ہوا
لو لرزتی ہی رہی میری پشیمانی کی

اب تو مٹی کے سوا کوئی خریدار نہیں
تُو نے قیمت ہی گرا دی مری پیشانی کی

رفیع رضا

کبھی تو نے خود بھی سوچا، کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے

کبھی تو نے خود بھی سوچا، کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے
تجھے پا کے بھی مرا دل جو اداس ہے تو کیوں ہے

مجھے کیوں عزیز تر ہے یہ دھواں دھواں سا موسم
یہ ہوائے شام ہجراں، مجھے راس ہے تو کیوں ہے

تجھے کھو کے سوچتا ہوں، مرے دامن طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے کوئی آس ہے تو کیوں ہے

میں اجڑ کے بھی ہوں تیرا، تو بچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے، یہ قیاس ہے تو کیوں ہے

مرے تن برہنہ دشمن، اسی غم میں گھل رہے ہیں
کہ مرے بدن پہ سالم، یہ لباس ہے تو کیوں ہے

کبھی پوچھ اس کے دل سے کہ یہ خوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں جو اداس ہے تو کیوں ہے

ترا کس نے دل بجھایا، مرے اعتبار ساجد
یہ چراغ ہجر اب تک، ترے پاس ہے تو کیوں ہے

محبت مر بھی سکتی ہے

محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم

جسے بھی چاہتےہو تم
سدا عزت اسے دینا
وگرنہ چند لمحوں میں
...محبت چھوڑ جاتی ہے
صدائیں عمر بھر بھی دو
وہ مڑ کر نہیں تکتی
بھلا کیوں ایسا ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟
کہ مردے آنکھیں رکھتے ہیں
مگر کھولا نہیں کرتے
پکارو لاکھ ان کو تم
صدائیں تو وہ سنتے ہیں
لب کھولا نہیں کرتے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
محبت مر بھی سکتی ہے

کون دیتا ہے مجھے جینے یہاں مرضی سے

آ پڑی ہم پہ کوئی ایسی بھی افتاد نہیں
کیوں دکھاؤں اسے وہ دل کہ جو آباد نہیں

میں نے جس بات پہ توڑا تھا تعلق اس سے
کیا تماشا ہے کہ وہ بات اسے یاد نہیں

اک خلش سی تو ہر اک حال میں رہتی ہے کہیں
کبھی ناشاد نہیں دل تو کبھی شاد نہیں

کون دیتا ہے مجھے جینے یہاں مرضی سے
اک پرندہ ہی نہیں، میں بھی تو آزاد نہیں


ہم نے توڑا ہے تعلق تو کسی جانب سے
حرفِ تحسین نہیں کوئی، کوئی داد نہیں

سعد اللہ شاہ

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے

جس میں تک لکھو

کہ کل کس رنگ کے کپڑے پہننے، کون سی خوشبو لگانی ہے

کسے کیا بات کہنی، کون سی کس سے چھپانی ہے

کہاں کِس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے

مل کر پوچھنا ہے

کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟

یہ فرسودہ سا جملہ ہے

مگر پھر بھی یہی جملہ

دریچوں، آنگنوں، سڑکوں، گلی کوچوں میں چوباروں میں

چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں

ہر جگہ کوئی کسی سے کہہ رہا ہے

کیا تمہیں مجھ سے محبّت ہے؟

محبّت ڈائری ہرگز نہیں ہے

جس میں تک لکھو

تمہیں کس وقت، کس سے کِس جگہ ملنا ہے کِس کو چھوڑ جانا ہے

کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے یا خاموش رہنا ہے

کسی کے ساتھ کتنی دور تک جانا ہے اور کب لوٹ آنا ہے

کہاں آنکھیں ملانا ہے کہاں پلکیں جھکانا ہے

یا یہ لکھّو کہ اب کی بار جب وہ ملنے آئے گا

تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر

دھنک چہرے پہ روشن جگمگاتی رقص کرتی اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے پیچوں پیچ دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے

بہت ممکن ہے وہ عجلت میں آئے

اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ

نہ آنکھوں ہی میں جھانکو اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ

جہاں پر گفتگو کرنی ہے تم خاموش ہو جاؤ

جہاں خاموش رہنا ہے وہاں تم بولتے جاؤ

Tuesday, May 29, 2012

محبت کا یہ انجام تو ہے

دیکھ کر لوگ مجھے نام تیرا لیتے ہیں 
اس پہ میں خوش ہوں محبت کا یہ انجام تو ہے

فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا

ہر ایک عشق کے بعد اور اُس کے عشق کے بعد
فراز اتنا بھی آساں نہ تھا سنبھل جانا

پرفریب ھے وعدہ ترا


مانا کہ پرفریب ھے وعدہ ترا مگر
کرتے ھیں انتظار بڑے اعتبار سے

نام بھی میرا بھول گیا


اک عرصے کے بعد ملا تو نام بھی میرا بھول گیا
جاتے جاتے جسنے کہا تھا یاد بہت تم آئو گے

فراق

تیرے فراق میں مجھ پر جو سانحے گذرے
اگر وہ دن پہ گذرتے تو رات ھو جاتی

کچھ لوگ

مل جایئں تو جیون سجا دیتے ھیں لیکن
بچھڑیں تو دعاؤں سے بھی نھیں ملتے کچھ لوگ

غم الفت

غم الفت میرے چہرے سے عیاں* کیوں *نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا

تیرے سارے غم مجھے محترم


تیرے ساتھ بھی تیری ہر جفا مجھے معتبر
تیرے سارے غم مجھے محترم تیرے بعد بھی

نادان لڑکی


یہی باتیں تو مجھے جانے نہیں دیتیں
نادان لڑکی کبھی دل کو آرام بھی دو

عجب دیوانی لڑکی ہے


نہیں سنھبال سکی اپنی یادوں کے خزانے کو 
عجب دیوانی لڑکی ہے کچھ کھونا نہیں چاہتی

انجان


یہ جو تم سے میں انجان بنا پھرتا ھوں
ساری بات اسی انجانے پن میں ھے

یاد


یاد کے شعلوں پہ جلتا ھے ۔۔۔۔ اگر میرا بدن
اوڑھ کر پھولوں کی چادر تو بھی سو سکتا نہیں

یہ نادان سی جو لڑکی ہے


یہ محبتوں کی مثال ہے
یہ چاہتوں سے نہال ہے

یہ نادان سی جو لڑکی ہے
اس سے زندگی بحال ہے

Monday, May 21, 2012

میرے تن کے زخم نہ گن


میرے تن کے زخم نہ گن ابھی میری آنکھ میں ابھی نور ہے 
میرے بازؤؤں پہ نگاہ کر ، جو غرور تھا وہ غرور ہے 

ابھی رزم گاہ کے درمیاں ہے میرا نشاں کھلا ہوا 
ابھی تازہ دم ہے میرا فرض نئے معرکوں پہ تلا ہوا 

مجھے دیکھ قبضہ تیغ پر ابھی میرے ہاتھ کی گرفت ہے 
بڑا منتقم ہے میرا لہو یہ میرے نسب کی سرشت ہے 

میں اسی قبیلے کا فرد ہوں جو حریفِ سیلِ بلا رہا 
اسے مرگزار کا خوف کیا جو کفن بدوش سدا رہا 

میرے غنیم نہ بھول تو کہ ستم کی شب کو زوال ہے 
تیرا جبر ظلم بلا سہی میرا حوصلہ بھی کمال ہے 

تجھے ناز جو سن و گرز پر مجھے ناز اپنے بدن پر ہے 
وہی نامہ بر ہے بہار کا ، جو گلاب میرے کفن پر ہے

اعتراف‎


مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلا ہے
اکثر تجھ کو دیکھا ہے تانا بنتے
جب کوئی دھاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا
پھر سے باندھ کے
اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں
آگے بنتے لگتے ہو
تیرے اس تانے میں لیکن
ایک بھی گانٹھ گرہ بنترکی
کوئی دیکھ نہیں سکتا
میںنے تو ایک بار بنا تھا ایک ہی رشتہ
لیکن اس کی ساری گرہیں صاف نظر آتی ہیں
میرے یار جلا ہے‎

میرے معصوم قاتل تجھے کیا کہیں



میرے معصوم قاتل تجھے کیا کہیں

قتل گہ میں تیرا نقش پَا بھی نہیں

تُو میرے خوں بہا کا تکلّف نہ کر

تیرے ہاتھوں میں رنگِ حنا بھی نہیں

Wednesday, May 9, 2012

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ

سوچتا ہوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں ابھی اس کو شناسائے محبت نہ کروں
روح کو اس کی اسیر ِغم ِالفت نہ کروں
اس کو رسوا نہ کروں، وقفِ مصیبت نہ کروں

سوچتا ہوں کہ ابھی رنج سے آزاد ہے وہ
واقفِ درد نہیں، خوگر ِآلام نہیں
سحر عیش میں اس کی اثر ِشام نہیں
زندگی اس کے لیے زہر بھرا جام نہیں!

سوچتا ہوں کہ محبت ہے جوانی کی خزاں
اس نے دیکھا نہیں دنیا میں بہاروں کے سوا
نکہت و نور سے لبریز نظاروں کے سوا
سبزہ زاروں کے سوا اور ستاروں کے سوا

سوچتا ھوں کہ غم ِدل نہ سناؤں اس کو
سامنے اس کے کبھی راز کو عریاں نہ کرو
خلش دل سے اسے دست و گریباں نہ کروں
اس کے جذبات کو میں شعلہ بداماں نہ کروں

سوچتا ھوں کہ جلا دے گی محبت اس کو
وہ محبت کی بھلا تاب کہاں لائے گی
خود تو وہ آتش جذبات میں جل جائے گی
اور دنیا کو اس انجام پہ تڑپائے گی

سوچتا ھوں کہ بہت سادہ و معصوم ہے وہ
میں اسے واقف الفت نہ کروں

ن م راشد

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں

اپنی مستی، کہ ترے قرب کی سرشاری میں
اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دشواری میں

کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں
وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں

اک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے
میرے دن رات گزرتے ہیں اداکاری میں

وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں

اے زمانے میں ترے اشک بھی رو لوں گا ، مگر
ابھی مصروف ہوں خود اپنی عزاداری میں

اس کے کمرے سے اٹھا لایا ہوں یادیں اپنی
خود پڑا رہ گیا لیکن کسی الماری میں

اپنی تعمیر اٹھاتے تو کوئی بات بھی تھی
تم نے اک عمر گنوادی مری مسماری میں

ہم اگر اور نہ کچھ دیر ہوا دیں ، تو یہ آگ
سانس گھٹنے سے ہی مر جائے گی چنگاری میں

تم بھی دنیا کے نکالے ہوئے لگتے ہو ظہیر
میں بھی رہتا ہوں یہیں ، دل کی عملداری میں

اُسںے بہت رُولایا مجھے اِک بار ہنسا کر

اُسںے بہت رُولایا مجھے اِک بار ہنسا کر
جو چلا گیا میرے دل کی بستی کو سجا کر


کیسے بُھولا دوں وہ قرارِ جفا اپنے
مجھے آتا نہیں گُزر جانا خونِ وفا بہا کر


بڑی اُجڑی سی دُنیا ہے گلستانِ دل کی
کوئی گُلِ زیبا کِھلے اے بُلبُل توہی دُعا کر


ہم سے بُرا نہیں ہوگا کوئی جہاں میں
تو مُعزِز ہے زمانے کا ہم سے دُور رہا کر


غلط رستوں سے ہیں روابط میرے
تو اگر میرا ہے تو مجھے آ کر منع کر


تاریکیوں سے دل اکتا گیا ہے خدایا
میری زِیست میں اَب کوئی صُبح کر


اپنی دولتِ عشق پر مجھے یقیں ہے فائز
وہ لَوٹے گا میرے ساتھ رہے گا نئی دُنیا بسا کر

دل کی بستی کے چلو آج سفیروں سے ملیں

دل کی بستی کے چلو آج سفیروں سے ملیں
آو الفت میں گرفتار اسیروں سے ملیں

ہونے والا ہے جو شائد کہ پتا چل جائے
اپنے ہاتھوں میں سجی آج لکیروں سے ملیں

چل چلیں خاک میں لپٹی ہوئی بستی کی طرف
شان دیکھی ہے بہت آج فقیروں سے ملیں

ہر طرف تیرگی پھیلی ہے جہاں تک دیکھو
کچھ اُجالا ہی کریں آو منیروں سے ملیں

غور کر لیں کے ہمارے لئے بہتر کیا ہے
بات آئے نہ سمجھ میں تو مشیروں سے ملیں

دشمنوں سے تو توقع ہی نہیں کر سکتے
ہے بھلائی کی تمنا تو ظہیروں سے ملیں

اُن کے بس کا یہ نہیں روگ یقینا اظہر
وقت ظائع نہ کریں آپ قدیروں سے ملیں

ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ﻻﮐﮫ ﺿﺒﻂ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ
ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ
ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم


ہر بار میرے سامنے آتی رہی ہو تم
ہر بار تم سے مل کے بچھڑتا رہا ہوں میں
تم کون ہو یہ خود بھی نہیں جانتی ہو تم
میں کون ہوں یہ خود بھی نہیں جانتا ہوں میں
تم مجھ کو جان کر ہی پڑی ہو عذاب میں
اور اسطرح خود اپنی سزا بن گیا ہوں میں

تم جس زمین پر ہو میں اُس کا خدا نہیں
پس سر بسر اذیت و آزار ہی رہو
بیزار ہو گئی ہو بہت زندگی سے تم
جب بس میں کچھ نہیں ہے تو بیزار ہی رہو
تم کو یہاں کے سایہ و پرتو سے کیا غرض
تم اپنے حق میں بیچ کی دیوار ہی رہو

میں ابتدائے عشق سے بے مہر ہی رہا
تم انتہائے عشق کا معیار ہی رہو
تم خون تھوکتی ہو یہ سُن کر خوشی ہوئی
اس رنگ اس ادا میں بھی پُر کار ہی رہو

میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لُٹا کر مرے لیئے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو

جب میں تمہیں نشاطِ محبت نہ دے سکا
غم میں کبھی سکونِ رفاقت نہ دے سکا
جب میرے سب چراغِ تمنا ہوا کے ہیں
جب میرے سارے خواب کسی بے وفا کے ہیں
پھر مجھ کو چاہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں
تنہا کراہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں

جون ايليا

عجب دن تھے محبت کے


عجب دن تھے محبت کے
عجب موسم تھے چاہت کے
کبھی گر یاد آ جائیں
تو پلکوں پر ستارے جھلملاتے ھیں
کسی کی یاد میں راتوں کو
اکثر جاگنا معمول تھا اپنا
کبھی گر نیند آ جاتی تو ہم یہ سوچنے لگتے
ابھی تو وہ ہمارے واسطے رویا نہیں ہو گا
ابھی سویا نہیں ہو گا
ابھی ہم بھی نہیں روتے
ابھی ہم بھی نہیں سوتے
سو پھر ہم جاگتے تھے اور اسکو یاد کرتے تھے
اکیلے بیٹھ کر ویران دل آباد کرتے تھے
ہمارے سامنے تاروں کے جھرمٹ میں
اکیلا چاند ہوتا تھا
جو اس کے حسن کے آگے بہت ہی ماند ہوتا تھا
فلک پر رقص کرتے انگنت روشن ستاروں کو
جو ہم ترتیب دیتے تھے
تو اس کا نام بنتا تھا
ہم اگلے روز جب ملتے تو
گزری رات کی بے کلی کا ذکر کرتے تھے
ہر اک قصہ سناتے تھے
کہاں کس وقت
کس طرح سے دل دھڑکا بتاتے تھے
میں جب کہتا کے
جاناں آج تو میں رات کو اک پل نہیں سویا
تو وہ خاموش رہتی تھی
مگر اس کی نیند میں ڈوبی ہوئی دو جھیل سی آنکھیں
اچانک بول اٹھتی تھیں
میں جب اس کو بتاتا تھا کہ
میں نے رات کو روشن ستاروں میں
تمہارا نام دیکھا ھے
تو وہ کہتی تم جھوٹ کہتے ہو
ستارے میں نے دیکھے تھے
اور ان روشن ستاروں میں تمہارا نام لکھا تھا
عجب معصوم لڑکی تھی مجھے کہتی تھی
لگتا ھے کہ اب اپنے ستارے
مل ہی جائیں گئے
مگر اسکو کیا خبر تھی
کنارے مل نہیں سکتے
محبت کرنے والوں کے
ستارے مل نہیں سکتے

عاطف سعید

Tuesday, May 8, 2012

ہے محبت کا سِلسلہ کچھ اور


ہے محبت کا سِلسلہ کچھ اور
درد کُچھ اور ہے دَوا کُچھ اور
غم کا صحرا عجیب صحرا ہے
جتنا کاٹا یہ بڑھ گیا کُچھ اور
بھیڑ میں آنسوؤں کی سُن نہ سکا
تم نے شاید کہا تو تھا کچھ اور
کم نہیں وصل سے فراق ترا
اِس زیاں میں ہے فائدہ کُچھ اور
دل کِسی شے پہ مُطمئن ہی نہیں
مانگتا ہے یہ اژدہا، کُچھ اور
تیرے غم میں حسابِ عُمر رواں
جتنا جوڑا، بِکھر گیا کُچھ اور
وصل کی رات کاٹنے والے
ہے شبِ غم کا ذائقہ کُچھ اور
ہر طرف بھیڑ تھی طبیبوں کی
روگ بڑھتا چلا گیا کُچھ اور
کٹ گئے دھار پہ زمانے کی
ہم سے امجد نہ ہوسکا کُچھ اور

چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہوگا


چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہوگا
اب تیرا عکس فقط اپنی غزل میں ہوگا

اور اک سانس کو جینے کی تمنا کر لیں
ایک لمحہ تو ابھی دشتِ اَجل میں ہوگا

راکھ ماضی کی کُریدو، نہ پَلٹ کر دیکھو
آج کا دن بھی ہُوا گُم، تو وہ کل میں ہوگا

کیوں کسی موڑ پہ رُک رُک کے صدا دیں اُس کو
وہ تو مصروف مُصافت کے عمل میں ہوگا

جس سے منسوب ہے تقدیر ِ دو عالم کا مزاج
وہ ستارہ بھی تیری ظلف کے بَل میں ہوگا

ہجر والو! وہ عدالت بھی قیامت ہوگی
فیصلہ ایک صدی کا، جہاں پًل میں ہوگا

اُس کو نیندوں کے نگر میں نہ بساؤ محسن
ورنہ شامل وہی نیندوں کے خلل میں ہوگا

شاعر : محسن نقوی