Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Thursday, February 17, 2011

...مجھے چھوڑ جا

مجھے چھوڑ جا
یہ سفر نہیں عذاب ہے
یہاں ہر قدم پہ سراب ہے
یہاں بے وفائی رواج ہے
ابھی ہوش کھونے کے دن ہیں
ابھی تیرے رونے کے دن ہیں
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا
ابھی ساری نگری اندھیر ہے
ابھی دن نکلنے میں دیر ہے
ابھی بحرِ عشق میں نہ اُتر
ابھی شہر سارا ہے بے خبر
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا
ابھی وقت ہے مجھے چھوڑ جا

Wednesday, February 16, 2011

...خواہشوں کا ڈھانچہ

نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں

نہ کوئی رنگ توقع‘ نہ نقشِ پائندہ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں

کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا
کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں

نہ تازگی ہی بدن میں نہ پُرسکون تھکن
میں شاخِ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں

جہاں یقین کے تلووں میں آبلے پڑ جائیں
میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں اُترا ہوں

وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ ملا
میں تشنہ رنج اُسی کا سراب پیما ہوں

یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی
مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں

جو پڑھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت
میں تیرے دُکھ کا بدن ہوں میں تیرا سایہ ہوں

ورق ورق ہوں مگر صحن زیست میں احمد
مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں

....خواہشوں کے طاس

سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں
میں خواہشوں کے طاس کی ٹیڑھی لکیر ہوں

ہر لمحہ رُخ بدلتے مزاجوں کو کیا کہوں
میں آپ اپنے شہر میں اپنی نظیر ہوں

جسموں کی تیز آنچ سے محفوظ رکھ مجھے
اے شورشِ حیات! میں اب گوشہ گیر ہوں

دستِ طلب دراز کروں کس کے سامنے
آئے نہ جس پہ حرفِ انا وہ فقیر ہوں

ردِعمل ہے تو مرے خوابِ سکون کا
یا میں تری جبیں کی ادُھوری لکیر ہوں

احمد میں کس کے لب سے غزل پرورش کروں
غالب ہوں میں نہ شہر تغزل کا میر ہوں

.....کیا ہے

نعرہ تن تنانا‘ تن تنانا ہُو کیا ہے
دشت کہتے ہیں کسے‘ کون ہوں میں‘ تو کیا ہے

روح گھائل ہے بھلا کیسے بدن کو سمجھائے
اس کڑی دھوپ میں تسکین کا پہلو کیا ہے

تجھ سے اک پل بھی جدا ہوں تو تڑپ اُٹھتا ہوں
اے مرے پیار کی آسودہ خلش! تو کیا ہے

کونپلیں شاخ پہ پھوٹیں بھی تو جل جاتی ہیں
پیڑ حیراں ہیں‘ نمو چیز ہے کیا‘ لُو کیا ہے

تو فرشتہ ہے نہ جب قادرِ لغزش احمد
یہ اَنا کیا ہے تری اور یہ تری خو کیا ہے

...تیرے غم کا چراغ


منجمد ہو گیا لہو دل کا
تیرے غم کا چراغ کیا جلتا

وہ بھی دن تھے کہ اے سکونِ نظر!
تو مری دسترس سے باہر تھا

بجھ گئی پیاس آخرش اے دل!
ہو گیا خشک آنکھ کا دریا

تو مرا پیار مجھ کو لوٹا دے
جانے والے اُداسیاں نہ بڑھا

پاس خاطر ہے شہر میں کس کو
کون کرتا ہے اعترافِ وفا

تیری خواہش بھنور بھنور ساحل
میری منزل سکوت کا صحرا

پوچھتی تھی خزاں بہار کا حال
شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتا

کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا

...اعتماد کے بازو

خاک آلود ہو گئے ابرو
کٹ گئے اعتماد کے بازو

تیرے جذبے کے ہاتھ پتھر ہیں
میری سوچوں کے پاؤں میں گھنگرو

سینۂ سنگ بھی دھڑکنے لگا
چل گیا تیری آنکھ کا جادو

گونجتا ہے دماغ سوچوں سے
برہنہ ہے سکون کا پہلو

اس اُداسی کو کون دور کرے
وہم کا کس کے پاس ہے دارو

دھڑکنوں کا شکیب ٹوٹتا ہے
کس لیے چپ ہے میرے داتا تو!

کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو

ہر خوشی کو جھلس گئی احمد
شہر انفاس میں دُکھوں کی لو

.... ضبط کی شہ رگ

شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے

کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم
سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے

پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے
آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے

حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دُھند
سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے

آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے
دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے

اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا
کاہشِ رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے

سرِ تسلیم ہے خم‘ شوق سے آوازہ کسو
چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے

نہ کوئی رنگِ تبسم‘ نہ حرارت کی رمق
زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے

سخت بوجھل ہوں میں اب دُکھ کے سفر سے احمد
رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے

...بہت دُور تک گئی

دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی
خوشبو اُڑی تو رات بہت دُور تک گئی

بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ
شب‘ رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی

یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر
برقِ تبسمات بہت دُور تک گئی

خورشید کی تلاش میں نکلا جو گھر سے میں
تاریکیِ حیات بہت دور تک گئی

احمد سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی
اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی

...سوچ کی دستک

سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں

نااُمیدی! تیرے گھیراؤ سے ڈر لگنے لگا
دھڑکنوں کے دشت میں اک چشم آہو بھی نہیں

جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے
قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا کرب کی لو بھی نہیں

ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے
دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں

ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے
پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں

وقت نے تجھ سے ترے لہجے کی خوشبو چھین لی
میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ اب تو بھی نہیں

شام کی خستہ لحد پر بے سکوں ٹھہرا ہوں میں
میرا مونس کوئی ’’داتا‘‘ کوئی ’’باہو‘‘ بھی نہیں

خواب جو دیکھے تھے احمد سب ادھورے رہ گئے
اب کسی خواہش کے آگے دل ترازو بھی نہیں

...سفر

جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں

اپنی تنہائی کا یہ حبس مٹانے کے لیے
جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں

تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا
میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا رُخ موڑتا ہوں

عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں
اب اسے‘ کوئی بتاؤ‘ میں برا کیسے کہوں

ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے
کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں

اب تو حالات سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں

تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام
آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں

زُلف ہوتا تو کسی دوشِ سکوں پر کھلتا
میں تو وہ زخمِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں

کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں
جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں

کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد
اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں

....دل کا شیشہ

دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے

تم جو میری بات سُنے بِن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے

رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے

آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے

تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے

کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے

احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے

Saturday, February 12, 2011

تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا : واصف علی واصف


تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا
مجھ سے جدا ہوا تھا مگر بے وفا نہ تھا

طرفہ عذاب لائے گی اب اس کی بددعا
دروازہ جس پہ شہر کا کوئی کھلا نہ تھا

شامل تو ہوگئے تھے سبھی اک جلوس میں
لیکن کوئی کسی کو بھی پہچانتا نہ تھا

آگاہ تھا میں یوں تو حقیقت کے راز سے
اظہار حق کا دل کو مگر حوصلہ نہ تھا

جو آشنا تھا مجھ سے بہت دور رہ گیا
جو ساتھ چل رہا تھا مرا آشنا نہ تھا

سب چل رہے تھے یوں تو بڑے اعتماد سے
لیکن کسی سے پاؤں تلے راستہ نہ تھا

ذروں میں آفتاب نمایا تھے جن دنوں
واصف وہ کیسا دور تھا وہ کیا زمانہ تھا


بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر : واصف علی واصف


بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر
شیرازہ ملت ہوں ، بکھر جاتا ہوں اکثر

میں ایسا سفینہ ہوں کہ ساحل کی صدا پر
طوفان کے سینے میں اُتر جاتا ہوں اکثر

میں موت کو پاتا ہوں کبھی زیرِ کفِ پا
ہستی کے گماں سے بھی گزر جاتا ہوں اکثر

مرنے کی گھڑی آئے تو میں زیست کا طالب
جینے کا تقاضا ہو تو مر جاتا ہوں اکثر

رہتا ہوں اکیلا میں بھری دنیا میں واصف
لے نام مرا کوئی تو ڈر جاتا ہوں اکثر


آنے والی کل کا دُکھ : پروین شاکر


مِری نظر میں اُبھر رہا ہے
وہ ایک لمحہ
کہ جب کسی کی حسین زُلفوں کی
 نرم چھاؤں میں آنکھ مُوندے
گئے دنوں کا خیال کر کے
تم ایک لمحے کو کھو سے جاؤ گے اور شاید
نہ چاہ کر بھی اُداس ہو گے
تو کوئی شیریں نوا یہ پُوچھے گی
’’میری جاں ! تم کو کیا ہُوا ہے؟
یہ کس تصور میں کھو گئے ہو؟
تمھارے ہونٹوں پہ صبح کی اوّلیں کرن کی
 طرح سے اُبھرے گی مُسکراہٹ
تم اُس کے رُخسار تھپتھپا کے
کہو گے اُس سے
میں ایک لڑکی کو سوچتا تھا
عجیب لڑکی تھی۔۔۔کِتنی پاگل!‘‘
تُمھاری ساتھی کی خُوب صورت
 جبیں پہ کوئی شکن بنے گی
تو تم بڑے پیار سے ہنسو گے
کہو گے اُس سے
’’ارے وہ لڑکی
وہ میرے جذبات کی حماقت
وہ اس قدر بے وقوف لڑکی
مرے لیے کب کی مر چکی ہے!
پھر اپنی ساتھی کی نرم زُلفوں میں
 اُنگلیاں پھیرتے ہوئے تم
کہو گے اُس سے
چلو، نئے آنے والی کل میں
ہم اپنے ماضی کو دفن کریں


آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا : پروین شاکر

آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا
 میرے دل پہ چھایا ہے میرے گھر کا سناٹا

رات کی خموشی تو پھر بھی مہرباں نکلی
 کِتنا جان لیوا ہے دوپہر کا سناٹا

صُبح میرے جُوڑے کی ہر کلی سلامت نکلی
 گونجتا تھا خوشبو میں رات بھر کا سناٹا

اپنی دوست کو لے کر تم وہاں گئے ہو گے
 مجھ کو پوچھتا ہو گا رہگزر کا سناٹا

خط کو چُوم کر اُس نے آنکھ سے لگایا تھا
 کُل جواب تھا گویا لمحہ بھر کا سناٹا

تُو نے اُس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کُچھ تو کہہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا


کون مرے خواب لے گیا : پروین شاکر


آنکھوں سے میری، کون مرے خواب لے گیا
 چشمِ صدف سے گوہرِ نایاب لے گیا

اِس شہرِ خوش جمال کو کِس کی لگی ہے آہ
 کِس دل زدہ کا گریہ خونناب لے گیا

کُچھ نا خدا کے فیض سے ساحل بھی دُور تھا
 کُچھ قسمتوں کے پھیر میں گرداب لے گیا

واں شہر ڈُوبتے ہیں ، یہاں بحث کہ اُنہیں
 خُم لے گیا ہے یا خمِ محراب لے گیا

کچھ کھوئی کھوئی آنکھیں بھی موجوں کے ساتھ تھیں
 شاید اُنہیں بہا کے کوئی خواب لے گیا

طوفان اَبر و باد میں سب گیت کھو گئے
 جھونکا ہَوا کا ہاتھ سے مِضراب لے گیا

غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
 اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا

اے آنکھ!اب تو خواب کی دُنیا سے لوٹ آ
’’مژگاں تو کھول!شہر کو سیلاب لے گیا!


آنچل اور بادبان : پروین شاکر

ساحل پر اِک تنہا لڑکی
سرد ہَوا کے بازو تھامے
گیلی ریت پر گھُوم رہی ہے
جانے کس کو ڈھونڈ رہی ہے
بِن کاجل، بیکل آنکھوں سے
کھلے سمندر کے سینے پر
فراٹے بھرتی کشتی کے بادبان کے لہرانے کو
کس حیرت سے دیکھ رہی ہے!
کس حسرت سے اپنا آنچل مَسل رہی ہے!

آشیر باد : پروین شاکر


پھر مسیحائی دستگیر ہُوئی
چُن رہی ہے تمھارے اشکوں کو
کِس محبت سے یہ نئی لڑکی
میرے ہاتھوں کی کم سخن نرمی
دُکھ تمھارے نہ بانٹ پائی مگر
اس کے ہاتھوں کی مہربانی کو
میری کم ساز آرزو کی دُعا
اور یہ بھی کہ اس کی چارہ گری
عمر بھر ایسے سر اُٹھا کے چلے
میری صُورت کبھی نہ کہلائے
زخم پر ایک وقت کی پٹّی

آزمائش : پروین شاکر


ڈیڑھ برس کے بعد
اچانک
وقت نے اپنا آئینہ پن دِکھلایا
بچھڑے ہوؤں کو مدِّ مقابل لے آیا
بہتی ہَوا کے عکس بنانے والا ساحر
گونگی تصویروں کو اب آواز بھی دے!


آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو : پروین شاکر


آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو

پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو

موجۂ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو

قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہربان جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو

ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو

عارضِ گُل کو چھُوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو

کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انہیں دشت و دمن کی خوشبو

اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں انہیں دشت وطن کی خوشبو

آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی! : پروین شاکر



رات گہری ہے مگر چاند چمکتا ہے ابھی
میرے ماتھے پہ ترا پیار دمکتا ہے ابھی

میری سانسوں میں ترا لمس مہکتا ہے ابھی
میرے سینے میں ترا نام دھڑکتا ہے ابھی

زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی
تیری آواز کا جادو ہے ابھی میرے لیے

تیرے ملبوس کی خوشبو ہے ابھی میرے لیے
تیری بانہیں ،ترا پہلو ہے ابھی میرے لیے

سب سے بڑھ کر، مری جاں !تو ہے ابھی میرے لیے
زیست کرنے کو مرے پاس بہت کُچھ ہے ابھی

آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی!
آج کے بعد مگر رنگ وفا کیا ہو گا

عشق حیراں ہے سرِ شہرِ سبا کی ہو گا
میرے قاتل! ترا اندازِ جفا کیا ہو گا!

آج کی شب تو بہت کچھ ہے ، مگر کل کے لیے
ایک اندیشہ بے نام ہے اور کچھ بھی نہیں

دیکھنا یہ ہے کہ کل تجھ سے ملاقات کے بعد
رنگِ اُمید کھِلے گا کہ بکھر جائے گا!

وقت پرواز کرے گا کہ ٹھہر جائے گا!
جیت ہو جائے گی یا کھیل بگڑ جائے گا
خواب کا شہر رہے گا کہ اُجڑ جائے گا!

آج کی رات : پروین شاکر


نیند پلکوں کی جھالر کو چھُوتی ہوئی
اوس میں اپنا آنچل بھگو کے
مرے دُکھتے ماتھے پہ رکھنے چلی ہے
مگر__آنکھ اور ذہن کے درمیاں
آج کی شب وہ کانٹے بچھے ہیں
کہ نیندوں کے آہستہ رَو، پھول پاؤں بھی چلنے سے معذور ہیں
ہر بُنِ مو میں اِک آنکھ اُگ آئی ہے
جس کی پلکیں نکلنے سے پہلے کہیں جھڑ چکی ہیں
اور اب ، رات بھر
روشنی اور کھُلی آنکھ کے درمیاں
نیند مصلوب ہوتی رہے گی!


آئینہ : پروین شاکر

لڑکی سرکوجھُکائے بیٹھی
کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے
لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل
لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو
اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے
دونوں میری نظر بچا کر
اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !
میں دونوں سے دُور
دریچے کے نزدیک
اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے
کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں
سوچ رہی ہوں
گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھے

بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟ : کشور ناہید

بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے ؟

بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے ؟

ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرانا کہاں سے آئے

وحشت حواس کی چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا کہاں سے آئے

جڑ سے اُکھڑ گئے تو بدلتی ُرتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے ؟

سایوں پہ اعتماد سے اُکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے ؟

غم کے تھپیڑے لے گیا ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے ؟

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے : کشور ناہید

ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے

خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے

اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے

دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے

اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے

دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے

اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے

میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے

Wednesday, February 9, 2011

....دل


میرے پہلو میں نہیں آپ کی مٹھی میں نہیں
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ٹھکانا دل کا

وہ بھی آپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
"ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا"


بے جھجھک آکے ملو ، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا

ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا

Tuesday, February 8, 2011

....محبت کی رہ گزر


یہ اور بات کہ تکلیف اِس سفر میں ہے
تمام لُطف‘ محبت کی رہ گزر میں ہے

تمام عالمِ امکاں کو صَرفِ ہُو کر دے
وہ اک شعور‘ وہ افسوں تری نظر میں ہے

تمام عمر‘ جسے ڈھونڈتے ہوئے گزری
سکونِ صبح کی صورت وہ میرے گھر میں ہے

وہ سنگِ زرد کو چاہے تو سرخرو کر دے
یہ ایک خوبی بھی اب دستِ کم ہُنر میں ہے

عروسِ شب! تری قربت میں اس قدر حدّت!
یہ خاصیت تو فقط شعلہ و شرر میں ہے

طلسمِ ذات کے گرداب سے نکل کر دیکھ
بشر کا فائدہ اندازِ درگزر میں ہے

جو پھل کے پکنے سے پہلے ہی سر کو خم کر دے
تمام حُسنِ تدبر تو اُس شجر میں ہے

وہ خوش خصال‘ جواں سال‘ تُندخو احمد
دُکھوں سے چور‘ مکیں شہر کے کھنڈر میں ہے

....دل کا شیشہ


دل کا شیشہ ٹوٹ گیا آوازے سے
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے

تم جو میری بات سُنے بِن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے

رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے

آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے

تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے

کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے

احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے

....خواب کی تعبیر


کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے
گرد میں گم خواب کی تعبیر ہونا ہے مجھے

جس کی تابندہ تڑپ صدیوں بھی سینوں میں بھی
ایک ایسے لمحے کی تفسیر ہونا ہے مجھے

خستہ دم ہوتے ہوئے دیوار و در سے کیا کہوں
کیسے خشت و خاک سے تعمیر ہونا مجھے

شہر کے معیار سے میں جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں
اپنی ہستی سے تری توقیر ہونا ہے مجھے

اک زمانے کے لئے حرف غلط ٹھہرا ہوں میں
اک زمانے کا خط تقدیر ہونا مجھے


....عکس


ہم جو بے تاب ہیں اپنے گھر میں
عکس کس کا ہے دیوار و در میں

بھول کوئی تو ہم سے ہوئی ہے
دشت کیوں بڑھ کے آیا نگر میں

دھند میں گم ہیں اپنی اڑانیں
صبح چمکی نہیں بال و پر میں

ٹوٹتے جا رہے ہیں مسافر
کون اپنا رہے گا سفر میں

ہر جہاں نے یہی خواب دیکھا
زندگی ہے جہان دگر میں

آگ ہی آگ ہے دل میں یوسف
راکھ ہی راکھ ہے رہگذر میں

Monday, February 7, 2011

.... دیکھتے ہیں


ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں

جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں

رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں

تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں

یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں

یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں

نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں

یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں

ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں

بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر
چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں

.... لوگو


اب کے ہم پر کیسا سال پڑا لوگو
شہر میں آوازوں کا کال پڑا لوگو

ہر چہرہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا
اب کے دلوں میں ایسا بال پڑا لوگو

جب بھی دیار خندہ دلاں سے گزرے ہیں
اس سے آگے شہر ملال پڑا لوگو

آئے رت اور جائے رت کی بات نہیں
اب تو عمروں کا جنجال پڑا لوگو

تلخ نوائی کا مجرم تھا صرف فراز
پھر کیوں سارے باغ پہ جال پڑا لوگو


.... جاناں


اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں

ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں

ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں

جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں

اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں

ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں

ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں