Thursday, February 17, 2011
...مجھے چھوڑ جا
Wednesday, February 16, 2011
...خواہشوں کا ڈھانچہ
....خواہشوں کے طاس
.....کیا ہے
...تیرے غم کا چراغ
...اعتماد کے بازو
.... ضبط کی شہ رگ
...بہت دُور تک گئی
...سوچ کی دستک
...سفر
....دل کا شیشہ
Saturday, February 12, 2011
تلخی زبان تک تھی وہ دل کا برا نہ تھا : واصف علی واصف
بدلے ہوئے حالات سے ڈر جاتا ہوں اکثر : واصف علی واصف
آنے والی کل کا دُکھ : پروین شاکر
آنگنوں میں اُترا ہے بام و در کا سناٹا : پروین شاکر
کون مرے خواب لے گیا : پروین شاکر
آنچل اور بادبان : پروین شاکر
آشیر باد : پروین شاکر
آزمائش : پروین شاکر
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو : پروین شاکر
آج کی شب تو کسی طور گُزر جائے گی! : پروین شاکر
آج کی رات : پروین شاکر
آئینہ : پروین شاکر
بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟ : کشور ناہید
ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے : کشور ناہید
Wednesday, February 9, 2011
....دل
بے ٹھکانے ہے بہت دن سے ٹھکانا دل کا
وہ بھی آپنے نہ ہوئے دل بھی گیا ہاتھوں سے
"ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا"
بے جھجھک آکے ملو ، ہنس کے ملاؤ آنکھیں
آؤ ہم تم کو سکھاتے ہیں ملانا دل کا
ان کی محفل میں نصیر ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم ہاتھ سے جانا دل کا
Tuesday, February 8, 2011
....محبت کی رہ گزر
....دل کا شیشہ
تیرا پیار بھی کم نکلا اندازے سے
تم جو میری بات سُنے بِن چل دیتے
رات لپٹ کر رو دیتا دروازے سے
رنجِ سکوں تو ترکِ وفا کا حصہ تھا
سوچ کے کتنے پھول کھلے خمیازے سے
آنکھیں پیار کی دھوپ سے جھلسی جاتی ہیں
روشن ہے اب چہرہ درد کے غازے سے
تیرا دُکھ تو ایک لڑی تھا خوشیوں کی
تار الگ یہ کس نے کیا شیرازے سے
کتنے سموں کے شعلوں پر اک خواب جلے
کتنی یادیں سر پھوڑیں دروازے سے
احمد گہری سوچ کی خو کب پائی ہے
تم تو باتیں کرتے تھے اندازے سے
....خواب کی تعبیر
کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے
گرد میں گم خواب کی تعبیر ہونا ہے مجھے
جس کی تابندہ تڑپ صدیوں بھی سینوں میں بھی
ایک ایسے لمحے کی تفسیر ہونا ہے مجھے
خستہ دم ہوتے ہوئے دیوار و در سے کیا کہوں
کیسے خشت و خاک سے تعمیر ہونا مجھے
شہر کے معیار سے میں جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں
اپنی ہستی سے تری توقیر ہونا ہے مجھے
اک زمانے کے لئے حرف غلط ٹھہرا ہوں میں
اک زمانے کا خط تقدیر ہونا مجھے
....عکس
ہم جو بے تاب ہیں اپنے گھر میں
عکس کس کا ہے دیوار و در میں
بھول کوئی تو ہم سے ہوئی ہے
دشت کیوں بڑھ کے آیا نگر میں
دھند میں گم ہیں اپنی اڑانیں
صبح چمکی نہیں بال و پر میں
ٹوٹتے جا رہے ہیں مسافر
کون اپنا رہے گا سفر میں
ہر جہاں نے یہی خواب دیکھا
زندگی ہے جہان دگر میں
آگ ہی آگ ہے دل میں یوسف
راکھ ہی راکھ ہے رہگذر میں
Monday, February 7, 2011
.... دیکھتے ہیں
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر
چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں
.... لوگو
اب کے ہم پر کیسا سال پڑا لوگو
شہر میں آوازوں کا کال پڑا لوگو
ہر چہرہ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا
اب کے دلوں میں ایسا بال پڑا لوگو
جب بھی دیار خندہ دلاں سے گزرے ہیں
اس سے آگے شہر ملال پڑا لوگو
آئے رت اور جائے رت کی بات نہیں
اب تو عمروں کا جنجال پڑا لوگو
تلخ نوائی کا مجرم تھا صرف فراز
پھر کیوں سارے باغ پہ جال پڑا لوگو
.... جاناں
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بگریباں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھے ہم نے بھی سمجھ رکھا تھا
غم دوراں سے جدا ہے غم جاناں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سائے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہی زنجیر بہ پا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل زنداں جاناں
اب ترا ذکر بھی شاید ہی غزل میں آئے
اور سے اور ہوئے درد کے عنواں جاناں
ہم کہ روٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اڑتے ہوئے اوراق پریشاں جاناں