نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں
نہ کوئی رنگ توقع‘ نہ نقشِ پائندہ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں
کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا
کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں
نہ تازگی ہی بدن میں نہ پُرسکون تھکن
میں شاخِ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں
جہاں یقین کے تلووں میں آبلے پڑ جائیں
میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں اُترا ہوں
وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ ملا
میں تشنہ رنج اُسی کا سراب پیما ہوں
یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی
مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں
جو پڑھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت
میں تیرے دُکھ کا بدن ہوں میں تیرا سایہ ہوں
ورق ورق ہوں مگر صحن زیست میں احمد
مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں