خاک آلود ہو گئے ابرو
کٹ گئے اعتماد کے بازو
تیرے جذبے کے ہاتھ پتھر ہیں
میری سوچوں کے پاؤں میں گھنگرو
سینۂ سنگ بھی دھڑکنے لگا
چل گیا تیری آنکھ کا جادو
گونجتا ہے دماغ سوچوں سے
برہنہ ہے سکون کا پہلو
اس اُداسی کو کون دور کرے
وہم کا کس کے پاس ہے دارو
دھڑکنوں کا شکیب ٹوٹتا ہے
کس لیے چپ ہے میرے داتا تو!
کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو
ہر خوشی کو جھلس گئی احمد
شہر انفاس میں دُکھوں کی لو