شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے
کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم
سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے
پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے
آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے
حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دُھند
سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے
آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے
دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے
اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا
کاہشِ رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے
سرِ تسلیم ہے خم‘ شوق سے آوازہ کسو
چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے
نہ کوئی رنگِ تبسم‘ نہ حرارت کی رمق
زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے
سخت بوجھل ہوں میں اب دُکھ کے سفر سے احمد
رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے