جسم کے گھور اندھیرے سے نہ باہر نکلوں
اس کی خواہش ہے کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں
اپنی تنہائی کا یہ حبس مٹانے کے لیے
جی یہ چاہے کہ ترے حسن پہ آوازہ کسوں
تو نے ناحق ہی گرجنے کا تکلف برتا
میں تو بپھرے ہوئے طوفان کا رُخ موڑتا ہوں
عمر بھر جس کے لیے میں نے دعائیں مانگیں
اب اسے‘ کوئی بتاؤ‘ میں برا کیسے کہوں
ہے کوئی؟ خستہ لکیروں کی جو قبریں کھودے
کتنے مضمون ہیں مجھ سوختہ تن میں مدفوں
اب تو حالات سے پتھرانے لگی ہیں آنکھیں
زندگی! اور کہاں تک ترا رستہ دیکھوں
تیری بستی میں تو پتھر کے سجے ہیں اصنام
آدمی کوئی نظر آئے تو کچھ بات کروں
زُلف ہوتا تو کسی دوشِ سکوں پر کھلتا
میں تو وہ زخمِ وفا ہوں کہ مہک بھی نہ سکوں
کتنی آنکھیں مری خواہش پہ جھپٹ پڑتی ہیں
جب بھی اس شخص سے ملنے کی فراغت ڈھونڈوں
کس کو فرصت ہے مجھے ڈھونڈنے نکلے احمد
اپنی ہی چاپ پہ کب تک میں پلٹ کر دیکھوں