یہ اور بات کہ تکلیف اِس سفر میں ہے
تمام لُطف‘ محبت کی رہ گزر میں ہے
تمام عالمِ امکاں کو صَرفِ ہُو کر دے
وہ اک شعور‘ وہ افسوں تری نظر میں ہے
تمام عمر‘ جسے ڈھونڈتے ہوئے گزری
سکونِ صبح کی صورت وہ میرے گھر میں ہے
وہ سنگِ زرد کو چاہے تو سرخرو کر دے
یہ ایک خوبی بھی اب دستِ کم ہُنر میں ہے
عروسِ شب! تری قربت میں اس قدر حدّت!
یہ خاصیت تو فقط شعلہ و شرر میں ہے
طلسمِ ذات کے گرداب سے نکل کر دیکھ
بشر کا فائدہ اندازِ درگزر میں ہے
جو پھل کے پکنے سے پہلے ہی سر کو خم کر دے
تمام حُسنِ تدبر تو اُس شجر میں ہے
وہ خوش خصال‘ جواں سال‘ تُندخو احمد
دُکھوں سے چور‘ مکیں شہر کے کھنڈر میں ہے