بیمار ہیں تو اب دمِ عیسٰی کہاں سے آئے ؟
اُس دل میں دردِ شوقِ تمنا کہاں سے آئے ؟
بے کار شرحِ لفظ و معنی سے فائدہ
جب تو نہیں تو شہر میں تُجھ سا کہاں سے آئے ؟
ہر چشم سنگِ خذب و عداوت سے سرخ ہے
اب آدمی کو زندگی کرانا کہاں سے آئے
وحشت حواس کی چاٹ گئی خاکِ جسم کو
بے در گھروں میں شاکی کا سایا کہاں سے آئے
جڑ سے اُکھڑ گئے تو بدلتی ُرتوں سے کیا
بے آب آئینوں میں سراپا کہاں سے آئے ؟
سایوں پہ اعتماد سے اُکتا گیا ہے جی
طوفاں میں زندگی کا بھروسہ کہاں سے آئے ؟
غم کے تھپیڑے لے گیا ناگن سے لمبے بال
راتوں میں جنگلوں کا وہ سایہ کہاں سے آئے ؟