ہم کہ مغلوبِ گماں تھے پہلے
پھر وہیں ہیں کہ جہاں تھے پہلے
خواہشیں جھریاں بن کرابھریں
زخم سینے میں نہاں تھے پہلے
اب تو ہر بات پہ رو دیتے ہیں
واقفِ سود و زیاں تھے پہلے
دل سے جیسے کوئی کانٹا نکلا
اشک آنکھوں سے رواں تھے پہلے
اب فقط انجمن آرائی ہیں
اعتبارِ دل و جاں تھے پہلے
دوش پہ سر ہے کہ ہے برف جمی
ہم تو شعلوں کی زباں تھے پہلے
اب تو ہر تازہ ستم ہے تسلیم
حادثے دل پہ گراں تھے پہلے
میری ہمزاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے بھی کہاں تھے پہلے