دوش ہوا کے سات بہت دُور تک گئی
خوشبو اُڑی تو رات بہت دُور تک گئی
بادل برس رہا تھا کہ اک اجنبی کی چاپ
شب‘ رکھ کے دل پہ ہات بہت دور تک گئی
یہ اور بات لب پہ تھی افسردگی کی مہر
برقِ تبسمات بہت دُور تک گئی
خورشید کی تلاش میں نکلا جو گھر سے میں
تاریکیِ حیات بہت دور تک گئی
احمد سفر کی شام عجب مہرباں ہوئی
اک عمر میرے سات بہت دور تک گئی