سوچ کی دستک نہیں یادوں کی خوشبو بھی نہیں
زیست کے بے خواب گھر میں کوئی جگنو بھی نہیں
نااُمیدی! تیرے گھیراؤ سے ڈر لگنے لگا
دھڑکنوں کے دشت میں اک چشم آہو بھی نہیں
جسم کے حساس پودے کو نمو کیسے ملے
قرب کی ٹھنڈی ہوا کیا کرب کی لو بھی نہیں
ہم سفر ہیں مصلحت کا خول سب پہنے ہوئے
دوستی کیا اب کوئی تسکیں کا پہلو بھی نہیں
ضبط کے گہرے سمندر کو تموج بخش دے
پیار کی جلتی ہوئی آنکھوں میں آنسو بھی نہیں
وقت نے تجھ سے ترے لہجے کی خوشبو چھین لی
میں جسے اپنا سمجھتا تھا وہ اب تو بھی نہیں
شام کی خستہ لحد پر بے سکوں ٹھہرا ہوں میں
میرا مونس کوئی ’’داتا‘‘ کوئی ’’باہو‘‘ بھی نہیں
خواب جو دیکھے تھے احمد سب ادھورے رہ گئے
اب کسی خواہش کے آگے دل ترازو بھی نہیں