Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Wednesday, March 23, 2011

سلام

سلام اُس پہ جس کے لیے بنے دونوں جہاں
اُس پہ جِس کے جیسا رہبر ہے اور کہاں
بدل جائے جِس کے ایک اِشارے سے تقدیر
وہ شانِ مصطفی ہے، وہ ہادیِ برحق ہے
صادق و امین جِس کا لقب اور اِحمد نام ہے
غریبوں مسکینوں کی دِل جوئی جِس کا کام ہے
نفرتوں کو مٹایا، دیپ اُلفت کا جِس نے جلایا
جہاد کو فرض کیا، غیرتِ انسان کو بیدار کیا
قتلِ بنت گری ختم ہوئی اُس کی آمد سے
نساءِ عزت کو حیات بخشی آمنہ کے لال نے
سلام اُس پہ رحمت ہے جو دو جہاں کے لیے
اِیمان لانا ضروری ہے جِس پہ ایک مسلمان کے لیے

بھرم

دیوانگی جِس کا نام ہے لوگو!
ہم نے دیکھی اُس کی آنکھ میں لوگو!
عمر بھر کی تلاش، پوری زندگی کا ساتھ
اُس کے جزبوں میں نظر آتی ہے سچا ئی لوگو
ٹوٹ جائے نہ یہ میرا بھرم کہتا ہے دِل
اُس سے پہلے ہو جائے زندگی کی شام لوگو
جِسکے نام لِکھ چکے ہیں دل و جاں اپنی
اُ س کو دیں اب کیا اِلزام لوگو !
چاہت اِمتحان لیتی ہے تو کیا ہوا
ہم نے بھی چھوڑ دیئے ہیں قافلے تمام لوگو
نام اُس کا زندگی ہے جیتے نہیں جِس کے بِن
میری سوچوں پہ رہتا ہے اُسی کا پہرا لوگو
وفا نہیں وہ چیز جو ہو بیان دو لفظوں میں
اِس کے لیے کم لگتا ہے مجھ کو، یہ جیون ، یہ جہان لوگو

ہمنوا

وہ نگاہ میں اپنی کمال رکھتے ہیں
اُس کے جیسے کہاں اپنا جواب رکھتے ہیں
وقت بھر دے اُلفت کا زخم ا گر کبھی تو پھر
دُنیا وا لے وہی سامنے سوال رکھتے ہیں
روک پاوٴ گے نہ خود کو بربادی سے کسی طرح
خالی رہتے ہیں وہ ہاتھ جو خود میں گلاب رکھتے ہیں
منزل پہ گئے کیسے وہ ہمنوا ، یہاں تو رَت جگے میں رہتے ہیں
دل میں اُمیدیں، آنکھوں میں جو خواب رکھتے ہیں
اِس دل پہ کیا گزری ، کس سے کہیں ، کیسے کہیں
یہاں تو جس کو دیکھو، نفرتوں کے عذاب رکھتے ہیں

جاناں

چا ہتوں کا رکھتے ہو تم کتنا حساب جاناں
ہم نے تو تمہیں چاہا ہے بے حساب جاناں
توُ ساتھ ہو تو لگیں حزأیں جیسے ہوں بہاریں
اُلفت کی چاہ میں ہم نے سجائے کتنے خواب جاناں
سنبھال کے رکھنا ہو گا ہماری و فا کے موتی کو
بکھر جاےً نہ شبِِ ِ ہجر میں یہ شباب جاناں
شام سے سحر ہوئی سنتے سنتے کھو گئے
کوئی ہے نہیں تیری باتوں کا جواب جاناں
گِلا کرتے تجھ سے تیری بے وفائی کا تو کسطرح
تُو نے مارے پتھر تو ہم نے جانے وہ گلاب جاناں

یادیں

پہلے سے دِن رہے نہ پہلی سی راتیں
رُوٹھ گیںٴ نیندیں نہ رہیں پہلی سی باتیں
گزرا ہے آج کوئی اجنبی ہو کے اس طرح
بھول گےً اُس کو و ہ لمحے وہ ملاقا تیں
بدل گیا سب کچھ اور رہ گیںٴ بس یادیں
کچھ دن سے جو ہو گیں اُس کو مجھ سے عداوتیں
گوشہِ دل میں جو بس جائیں بھلانا محال ہے
وہ نگاہ، وہ مسکان، وہ چہرے، وہ باتیں
اپنی ہی آہٹ سے لرزنے لگی ہوں اکژ
اِسی حالت میں بھیگ جاتیں ہیں میری آنکھیں
گر ہم نہ رہے پہلے سے تو کہاں ہیں اب
اُس میں بھی وہ پہلی سی نظر، وہ پہلی سی باتیں

عطا

حاصل نہ کچھ میری وفاؤں کا تھا
بیقدر شاید وہ اِنتہاؤں کا تھا
چلا گیا اور کچھ کہا سنا نہیں
رابطہ جِس کے ساتھ نگاہوں کا تھا
اِنتظار کرنا، اُسے یاد کرنا چھوڑ بھی دیا مگر پھر بھی
گزارا کب اِس دل اور کب نگاہوں کا تھا
میرے دل کے ٹوٹنے کی آہٹ بھی نہ گئی اُس کے در پہ
بیکاری ہمارے دیدار ، جو ہماری چاہتوں کا تھا
نہ مرہم، نہ حوصلہ ، نہ دلاسہ ، نہ کوئی وعدہ اور
یہ اِنعام ہماری محبتوں اور رفاقتوں کا تھا
اب تو جانے تیرے بام و در کا کیا ہو گا عالم
جہاں کھلتے تھے پھو ل کیا سماں فظاؤں کا تھا
اِس غمِ بے نشان کا کروں کیا افشاں
یہ عطا اُن کی، سلسلہ اُن کی عنایتوں کا تھا

تیرے نام

چا ہت کے اُس جذبے کو سلام کرتے ہیں
آج ہم اپنا نام تیرے نام کرتے ہیں
چاہتوں میں کوئی گِلا نہیں شکوہ نہیں ہوتا
کرتے ہیں جو یہ کام وہ زندگی اپنی تمام کرتے ہیں
یہ دِل، یہ پل، یہ اِحساس تیرے نام کر دئیے ہیں
چل آج یہ زیست بھی تیرے نام کرتے ہیں
محبت تو اِیک ہوتی ہے بڑی عنایت خدا کی
جانے کیوں لوگ اِس جذبے کو پامال کرتے ہیں
تیری حو شبو کو بھرنا ہے اپنی زندگی، اپنے دل میں
آج ہم اپنے دریچہ ِدل کو وا کرتے ہیں

سزا

دِل کی ہر گلی ہر راستے پہ نام تیرا لکھ کر
نکلے جو گھر سے لے کر تیری یادوں کا سہارا
واسطہ رہا ٹھوکروں کی ناوٴ سے بارہا
پھر سِلسلہ شُروع ہوا دِل کی سزاوٴں کا
ہم تو کہتے تھے تیرے شہر کو بے مثال مگر
کھُلا ہم پہ نشیمن ہے یہ بے وفاوٴں کا
نہ جی سکا نہ مر سکا، کیا اُس کا حال بتائیں
وہ جو ہو گیا شکار چارہ گر کی اداوٴں کا
چراغِ محبت کیا جلایا دل کے آشیاں میں
میرے گھر کو ہی ہو گیا رُخ ہواوٴں کا
پکارا ہے اُس کو کئی بار دل و جاں سے مگر
ہوتا نہیں اُس پہ کچھ اثر اِس دل کی صداوٴں کا

سانسوں کی ڈور

دل کے آئینے میں تصویر تمہاری ہے
یہ تصویر ہم کو جاں سے پیاری ہے
تم سدا ر ہو آباد اور خوش
یہ تمنا آج سے ہماری ہے
تم سے مل کر ہی سیکھی ہے محبت ہم نے
تم نے ہی یہ زندگی سنواری ہے
تمہاری سانسوں سے بندی بندی
میرے جیون کی ڈوری ہے
ہمارے لیے ہی رب نے یہ
صورت آسمان سے اُتاری ہے
تیرے ملنے سے ملا مقصدِ حیات مجھ کو
آج تک تو زندگی ہم نے رائیگاں گزاری ہے

اے زندگی

اے زندگی میری تھی تو
تو پیار تھا تجھ سے
اب تجھ پہ کوئی
مجھ سے زیادہ حق جتاتا ہے
تو کیوں پروا ہو تیری
مجھے کیوں چاہ ہو تیری
اب اتنا یاد رکھنا کہ
مجھے زیادہ ستائے گی
تو تجھ سے کھیل جاؤں گی

اعزاز

میری بس اتنی خواہش ہے
کہ جب تم اپنی چاہت سے
اظہارِ عشق کرنے کو
مبہم الفاظ ڈھونڈو تو
میرے اشعار میں پنہاں
میری عرض تمنا کو
تم آواز دینا
مجھے اعزاز دے دینا

دل کی باتیں

میں نے دل کی باتیں پوچھی تھیں
اسے خود بھی وہ معلوم نہ تھیں
وہ چھپا چھپا کے رکھتا تھا
پر اتنی بھی معدوم نہ تھیں
شاید کوئی بیچ میں حائل تھا
جو مالک اور میں سائل تھا
میری جھولی پریت سے بھرنے کو
دل اس کا بھی تو مائل تھا
لیکن کچھ سوچ کے ٹھہر گیا
اس سوچ سوچ میں پہر گیا
ہم اپنے گھر کو لوٹ آئے
دل سے اسکا نہ سحر گیا
پھر کیا کہنا کیا سننا تھا
بس اتنا سا ہی قصہ تھا
کہ اسکے دل کی دھرتی میں
میرا بھی کچھ حصہ تھا

...ہمدرد

نجانے کوئی کیوں مجھکو ہمدرد نظر نہیں آتا
اور جسے ہمدرد کہوں اسے درد نظر نہیں آتا
سلجھالی ہیں شاید اسنے ساری بھول بھلیاں
شہر کی گلیوں کو آوارہ گرد نظر نہیں آتا
دل کی دیواروں سے اسکا نام مٹا سکتا ہو
ساری دنیا میں ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا
خاموشی سے آیا وہ اور خاموشی سے چلا گیا
اور یہاں کچھ ماسوائے گرد نظر نہیں آتا
گاہے گاہے چمک رہی ہے اسکی دھوپ سی صورت
شہرِ دل کا موسم ویسا سرد نظر نہیں آتا

خواہش

بہت سا پیار
تھوڑی سی دوستی
چند خوشنما
باتیں
ہماری یاد میں زندہ
وصل کی ان گنت شامیں
بہت بے مول ہیں مانا
مگر ان سب کے بدلے میں
مجھے کچھ دینا چاہو تو
بس اک بار کہہ دینا
تمہیں مجھ سے محبت ہے

دل تھا کہیں اور ہم تھے کہیں پر

دل تھا کہیں اور ہم تھے کہیں پر
ملائے گئے نہ گلے زندگی سے
عمر بھر کے سفر میں ملا دو گھڑی وہ
وہی دو گھڑی ہم ملے زندگی سے
عکس اپنا دیکھا نگاہوں میں اسکی
ہمیں اب نہیں ہیں گلے زندگی سے
چاہا اسے چاہتے جا رہے ہیں
مانگے کہاں ہیں ملے زندگی سے

ہجر رتوں کے ساتھی

عمر کی جھولی میں جیون نے
دیکھوں کیا کیا ڈالا ہے
کچھ وصل کے مٹھی بھر لمحے
کچھ ہجرتوں کی تنہائی
ملن کی اک انمول گھڑی
کچھ مایوسی اور رسوائی
ایک محبت یکطرفہ
اور کچھ بے چین سی راتیں ہیں
دو باتیں ان کہی ہوئی
اور جھولی بھر بھر یادیں ہیں
اب انکے ساتھ ہی جینے ہیں
جو دن دنیا میں باقی ہیں
ان تحفوں کا نہ مول کوئی
یہ ہجر رتوں کے ساتھی ہیں

اتنا کیوں پریشان ہے میری دیوانگی سے تو

اتنا کیوں پریشان ہے میری دیوانگی سے تو
جہاں میں اور بھی موجود کتنے ہی دیوانے ہیں
تیری خوشبو ، تیری باتیں، تیرا چہرا، تیری یادیں
چھپانے کو میرے دل میں ہزاروں قید خانے ہیں
اپنا آپ شاید میں وہیں پہ بھول آئی ہوں
جہاں تیرے میرے رستے مخالف سمت جانے ہیں
اس ہراساں دیپ کی مانند ہوں میں جس نے
ہجر کی آندھیوں کے حوصلے بھی آزمانے ہیں
بچھڑ کے تجھ کو بھی اکثر میری یادیں ستائیں گی
میراسم بھی تو تجھ سے جانِ جاں برسوں پرانے ہیں

غریب شہر کی منزل کا پتہ کون کرے

غریب شہر کی منزل کا پتہ کون کرے
زندگی بے وفا امیدِ وفا کون کرے
دلِ ویران کا احساس اسے کیسے ہو
جو پشیماں ہی نہیں اس سے گلہ کون کرے
اسے چاہتے رہنا اگر گناہ ہے میرا
تو اسے مانگتے رہنے کی خطا کون کرے
وہ اندازِ مسیحائی کہاں ڈھونڈوں میں
ہر پل تیرے گھائل کی دوا کون کرے
تیری یادوں کو کتابوں میں چھپا رکھا ہے
ورنہ بکھرے ہوئے پھولوں پہ نگاہ کون کرے

سنا ہے شہر میں

آج صبح نئی نئی سی ہے
ایسا لگتا ہے کہیں پاس ہے وہ
اسکی خوشبو میں بسے سرد ہوا کے جھونکے
کہہ رہے ہیں کہ یہیں پاس ہے وہ
بے بسی کر رہی ہے من بوجھل
دل اسے دیکھنے کو ہے بے کل
سونی گلکیوں کو تکے جا رہے ہیں
مانتے کیوں نہیں نینا پاگل
جانتے ہیں اسے معلوم نہیں ہجر کا غم
درد کا ذائقہ بھی اسنے کہاں چکھا ہے
پھر بھی راہوں میں بچھے جا رہے ہیں
سنا ہے شہر میں آج اسنے قدم رکھا ہے

Friday, March 18, 2011

....مقدّر

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
میں جو گئے دنوں میں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی تو
عُمر کی گرتی دیواروں دے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم سے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے

دل کی ٹوہ


بنا ہی بات لڑتی ہے
عقل تو نام کو نہیں
کس بات پہ اکڑتی ہے ؟
خود پہ ہی جھنجھلاتی
خود ہی سے بات کرتی ہے
کبھی کہتی ہے تم آتے کیوں نہیں
جو آیا دیکھ مجھ کو جل جل کباب ہوتی ہے
اکساتی ہے مجھے وہ بہر گفتگو
جو بات کرتا ہوں ،برا کیوں مان جاتی ہے ؟
چلو وہ ایسی ہے تو ہے
مگر وہ کیوں ایسی ہے ؟
اسے نفرت اخوت سے
لب شیریں لہجہ بات کرتی ہے
کہتی ہے محبت کچھ نہیں ہوتی
محبتوں کے گیت گاتی ہے
عداوت رکھتی ہے وہ عشقیہ افسانوں سے
بڑے ہی شوق سے الف لیلہ بھی پڑھتی ہے
کبھی میں سمجھا نہیں اس کو
وہ ہر روز مجھ سے سمجھتی ہے
اسے کہاں ہوتی کبھی فکر میری
وہ ہر روز میری ،خیر ، لیتی ہے
آفت ہے ، مصیبت ہے ،میں جل کے کہتا ہوں
مگر بے ساختہ وہ دل کو موہ لیتی ہے
بگڑتی ہے جو تجھ پے ،علی، تو کیا غم ہے
تجھی سے واسطہ اس کا ترے دل کی ٹوہ لیتی ہے

Wednesday, March 16, 2011

...گمشدہ

میری آنکھیں مسلسل بہہ رہی ہیں
میرا دل جیسے چھلنی ہو گیا ہے
میری ہمت کچھ ایسے کم ہوئی ہے
کہ ہر امید جیسے کھو گئی ہے
وہ سارے راستے تھا جن پہ چلنا
وہ جن پہ تھا ہر اک منزل کو ملنا
وہ جن پہ تھا سبھی پھولوں پہ کھلنا
ًدفعتاَ سارے بنجر ہو گئے ہیں
میری تدبیریں الٹی ہو گئی ہیں
قدم جیسے شکستہ ہو گئے ہیں
فضا میں اب کچھ ایسا حبس سا ہے
کہ میرا سانس لینا بھی سزا ہے
میرے اطراف میں وہ تیرگی ہے
کہ سب کچھ آنکھ سے اوجھل ہواہے
نہیں یارو پرانا روگ کوئی
ابھی پچھلے ہی پل کا واقعہ ہے
میری قسمت کا تارا کھو گیا ہے۔۔۔۔۔
سیدہ کلثوم زہرہ

... بے قرار شاعر ہیں

کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ
سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں
رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو
آندھیوں کے موسم میں
تم دئیے رفاقت کے
تم جو پیار کی دولت
اپنے ہاتھوں سے
خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو
جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر
روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں
اِک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے
بے نوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جذبوں کی
نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی
رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں

... یہ وعدہ تو نہیں

زندگی خوابِ پریشاں سے زیادہ تو نہیں
اس میں تعبیر بھی مل جائے یہ وعدہ تو نہیں

بات نے بات اُلجھنے کی یہ خُو کیسی ہے؟
یہ بتا تیرا بچھڑنے کا ارادہ تو نہیں

کون خوشبو کے تعقب میں گیا دور تلک
لوگ سادہ ہیں مگر اتنے بھی سادہ تو نہیں

آپ جائیں گے تو ہم حد سے گزر جائیں گے
شہسوار آپ سہی، ہم بھی پیادہ تو نہیں

کس خوشی میں بھیجا ہے بتا سُرخ گلاب؟
ظلم کا یہ تیری جانب سے ارادہ تو نہیں

بےوفا ہم ہی سہی، خود پہ بھی کچھ غور کرو
بے رُخی آپ کی بھی حد سے زیادہ تو نہیں

....بھید


ہر آن میرا نیا رنگ ہے نیا چہرہ
وہ بھید ہوں جو کسی سے نہ میری جان کھلا


... اُسے کہنا

ان فاصلوں کی فکر میں کیوں کروں بھلا ؟
بہت دور رہ کے بھی میرے پاس ہے کوئی

اس سوچ میں ڈوبا ہے بہت دیر سے میرا دل
کیا اس کے دل میں بھی ایسا احساس ہے کوئی؟

اُس کو نظروں سے ہے بنا میری سانسوں کا تسلسل
اِس طرح میری زندگی کی آس ہے کوئی

اُس کا جو پوچھنا ہے تو بس اتنا ہی جان لو
بہت خاص، بہت خاص، بہت خاص ہے کوئی

محسن جو جارہے ہو تو یہ بھی اُسے کہنا
اُس کے بِنا اِس شہر میں اُداس ہے کوئی

.... وعدہ

یہ ہی وعدہ لیا تھا نا
ہمیشہ خوش ہی رہنا ہے
لو دیکھو دیکھ لو آ کہ
ہماری آنکھوں کو دیکھو تم
یہ کتنی شوخ لگتی ہیں
ہمارے ہونٹوں کو دیکھو تم
ہمیشہ مسکراتے ہیں
کوئی بھی غم اگر آیا
اسے ہنس کر سہا ہم نے
ہمارے چہرے کو دیکھو تم
ہمیشہ پر سکون ہوگا
کیا تھا ہم نے جو تم سے
وہ وعدہ کر دیا پورا
مگر یہ بات ہے پیارے
کبھی جو وقت مل جائے
تو ہماری شاعری پڑھنا
تمہیں محسوس تو ہوگا
کہیں تلخی بھرا لہجہ
کہیں پر درد بھر جھیلیں
کہیں لہجے کی کڑواہٹ
سنو ہم خوش تو ہیں لیکن
لہو ہر لفظ روتا ہے
لہو ہر لفظ روتا ہے

... معمّہ

ہم دونوں جو حرف تھے
ہم اِک روز ملے
اِک لفظ بنا
اور ہم نے اک معنی پائے
پھر جانے کیا ہم پر گزری
اور اب یوں ہے
تم اِک حرف ہو
اِک خانے میں
میں اک حرف ہوں
اک خانے میں 
بیچ میں
کتنے لمحوں کے خانے خالی ہیں
پھر سے کوئی لفظ بَنے
اور ہم دونوں اک معنی پائیں
ایسا ہو سکتا ہے
لیکن
سوچنا ہو گا
ان خالی خانوں میں ہم کو بَھرنا کیا ہے

.... اے دلِ تنہا

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے 
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے
...
میں تہہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

...سنو! تم لوٹ آؤ ناں

ذرا جو دُور جاتے ہو
تب احساس ہوتا ہے
کہ باقی کچھ نہیں رہتا

میرے جیون کے آنگن میں
میری خوشیوں کے دامن میں
تیرے بن کچھ نہیں رہتا

اُداسی چھائی رہتی ہے
سپنے ادھورے سے لگتے ہیں
دن صدیوں سے لگتے ہیں
ان آنکھوں کی جلتی لَو
مدھم پڑنے لگتی ہے
امیدیں مرنے لگتی ہیں

تیرے ہاتھوں سے میرے ہاتھ
اچانک چھوٹ جاتے ہیں
میرے ارمان روتے ہیں
تجھے آواز دیتے ہیں
تجھے واپس بلاتے ہیں

سنو! تم لوٹ آؤ ناں
کہ تم بن ہم ادھورے ہیں

.... وہ کون سا راستہ ہے

اس موڑ سے جاتے ہیں کچھ سست قدم رستے ، کچھ تیز قدم راہیں
پتھر کی حویلی کو شیشے کے گھروندوں میں ، تِنکوں کے نشیمن تک
صحرا کی طرف جا کر اِک راہ بگو لوں میں کھو جاتی ہے چکرا کر
رُک رُک کے جھجکتی سی
اِک موت کی ٹھنڈی سی وادی میں اُتری ہے
...اِک راہ اُدھڑتی سی ، چھلتی ہو ئی کانٹوں سے جنگل سے گزرتی ہے
اِک دوڑ کے جاتی ہے اور کود کے گرتی ہے انجان خلا ؤں میں
اِ س موڑ پہ بیٹھا ہوں جس موڑ سے جاتی ہیں ہر ایک طرف راہیں
اِک روز تو یوں ہو گا اس موڑ پر آکر تم ،
رُک جا ؤ گی کہہ دو گی
وہ کون سا راستہ ہے

...آشفتہ خیالی

یادِ جاناں سے کوئی شام نہ خالی جائے
رفتہ رفتہ یہی زنداں میں بدل جاتے ہیں
اب کسی شہر کی بنیاد نہ ڈالی جائے
مصحف رخ ہے کسی کا کہ بیاضِ حافظ
...ایسے چہرے سے کبھی فال نکالی جائے
وہ مروت سے ملا ہے تو جھکادوں گردن
میرے دشمن کا کوئی وار نہ خالی جائے
بے نوا شہر کا سایہ ہے مرے دل پہ فراز
کس طرح سے مری آشفتہ خیالی جائے

...اے دوست


جُز تیرے کوئی بھی دِن رات نہ جانے میرے
تو کہاں ہے مگر اے دوست پُرانے میرے

تو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برقِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے

شمع کی لو تھی کہ وہ توُ تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے

خلق کی بے خبری ہے کہ میری رُسوائی
لوگ مُجھ کو ہی سُناتے ہیں فسانے میرے

لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں‌ سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گری دِل یہ بھی خزانے میرے

آج اک اور برس بیت گیا اُس کے بغیر
جِس کے ہوتے ہوئے تھے ذمانے میرے

کاش تو بھی میری آواز سُنتا ہو
پھر پُکارا ہے تُجھے دِل کی صدا نے میرے

کاش تو بھی کبھی آئے مسیحائی کو
لوگ آ تے ہیں بُہت دِل کودُکھانے میرے

تو ہے کِس حال میں اے ذود فراموش میرے
مُجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے

چارہ گر یوں تو بُہت ہیں‌مگر اے جانِ فراز
جُز ترےاور کوئی غم نہ جانے میرے


...باوفا


خوشی ہوئی ہے یہ سن کر مگر بتا تو صحیح
تو ہوگیا جو مرے بعد باوفا بھی تو کیا

اسے تو قید کی عادت سی ہوگئی تھی بتول
یہ دل ہوا تری یادوں سے اَب رہا بھی تو کیا

...ردائے خواب


نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں؟
یہ دستِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر
لَبُوں کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے
یہ دِل تو کب کا سو چُکا " ردائے خواب" اوڑھ کر



....اب کوچ کرو

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا
اس دل کے دريدہ دامن میں، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا
شب بيتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجير پڑی دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کيا
پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا
اس حسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا

... ذرا آہستہ چل

ذرا آہستہ چل

کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
تعبیر کی صورت دینی ہے

کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
جنہیں اپنی محبت دینی ہے

کچھ پھول ہیں جن کو چننا ہے
اور ہار کی صورت دینی ہے

کچھ اپنی نیندیں باقی ہیں
جنہیں بانٹنا ہے کچھ لوگوں میں

ان کو بھی تو راحت دینی ہے
اے عمر ِ رواں!
ذرا آہستہ چل
ابھی خاصا قرض چکانا ہے

...کیا سے کیا ہو گئے ہم

محبت میں اُف کیا سے کیا ہو گئے ہم
خود اپنے سے جیسے جدا ہو گئے ہم
دمِ نزع بالیں پہ آنے کا حاصل
چلو اب ہٹو بھی ، خفا ہو گئے ہم
گراں ہے نزاکت پہ لفظِ تمنا
دھڑکتے دلوں کی صدا ہو گئے ہم
دمِ نزع بھی عشق رُسوا ہے توبہ
یہ لیجئے اب ان پہ فدا ہو گئے ہم
ارے جُرمِ اُلفت نے کیا کر دکھایا
خود اپنے کئے کی سزا ہو گئے ہم
اشاروں پہ چلنے لگے کسی اور کے
بڑے ہی نظر آشنا ہو گئے ہم
کہیں کیا بس اب آپ خود ہی سمجھ لیں
سراپا یہ لو التجا ہو گئے ہم
اثر ہے فُغاں میں نہ تاثیرِ غم میں
خود اپنے لئے بدعا ہو گئے ہم
بڑھی ہے غمِ ہجر سے اور چاہت
زمانہ یہ سمجھا جُدا ہو گئے ہم
وفاؤں کے بدلے جفا کرنے والے
ارے بے وفا باوفا ہو گئے ہم
نگاہِ محبت یہ کہتی ہے مخفی
سزا دیجئے پُر خطا ہو گئے ہم

... محبت


ہے محبت حیات کی لذّت
ورنہ کچھ لذّتِ حیات نہیں
کیا اجازت ہے، اِک بات کہوں؟
وہ ۔۔ مگر، خیر کوئی بات نہیں

... لکھنے کی خواہش

مجھے لکھنے کی خواہش ہے ۔۔۔
مگر لکھا نہیں جاتا
میرے الفاظ دل کی آہنی دیوار سے سر پھوڑتے ہیں
اور انہیں اظہار کا رستہ نہیں ملتا
میری آنکھیں جنھیں دِل میں چھپے جذبات کو اشکوں کی بولی میں
بتا دینے پہ قدرت تھی
وہ اب کچھ بھی نہیں کہتیں
میرے یہ لب !
جو دل کی ان کہی باتوں کو کہنے سے نہ ڈرتے تھے
وہ لب کچھ بھی نہیں کہتے
میرے یہ اُنگلیاں !
جو دل میں چُھپے جذبات کو اظہار کا رستہ بتاتی تھیں
وہ اب کچھ بھی نہیں لکھتیں
میری آنکھیں، یہ لب، یہ اُنگلیاں مجھ سے کہتے ہیں
کہ اب جذبات کو اظہار کا رستہ نہیں دینا
کہ یہ منہ زور ہوتے ہیں
فقط رستے کے ملنے سے
انہیں منزل تلک جانے کی حاجت ہی نہیں رہتی
نئے رستے پہ جاتے ہیں
نئی راہیں بناتے ہیں
مگر پھر واپسی کے سب نشاں یہ بھول جاتے ہیں
انہیں رستہ نہیں دینا
انہیں تم دِل میں رہنے دو !
وگرنہ خوں رُلائیں گے
انہیں رستہ نہیں دینا
انہیں تم دِل میں رہنے دو !
مجھے لکھنے کی خواہش ہے
مگر لکھا نہیں جاتا

Sunday, March 13, 2011

...وہ کسی اور کا





آنکھ اشکوں سے بھگونا چاہوں

میں اگر خوش ہوں تو رونا چاہوں
وہ کسی اور کا ہونا چاہے!
میں کسی اور کا ہونا چاہوں

....دسترس

اے کاش معجزہ یہ اپنے ہی بس میں ہوا
دل جس کو چاہتا ہے وہ دسترس میں ہو

...ایک ہی شخص

ساری دُنیا میں مرے جی کو لگا ایک ہی شخص
ایک ہی شخص تھا بخدا ایک ہی شخص

تو جو کہتا ہے ترے جیسے کئی اور بھی ہیں
تجھ دعوٰی ہے تو پھر خود سا دکھا ایک ہی شخص

دوست ! سب سےکہاں کھینچتا ہے غزل کا چلہ
حجرہءِ میر میں ہونا ہے سدا ایک ہی شخص


...غم کو چھپانے کی تمنّا

موم کی طرح پگھلتے ہوئے دیکھا اُسکو
رُت جو بدلی تو بدلتے ہوئے دیکھا اُسکو

وہ جو کاندھوں کو بھی نرمی سے چھوا کرتا تھا
ہم نے پھولوں کو مسلتے ہوئے دیکھا اُسکو

جانے کس غم کو چھپانے کی تمنّا ہے اُسے
آج ہر بات پہ ہنستے ہوئے دیکھا اُسکو



... زندگی کا سفر

مگر 
میری ایک خوائش ہے 
کے اس زندگی کے بعد
مجھے ایک اور زندگی ملے 
تا کے میں دیکھ سکوں
کے تم
میری زندگی سے 
کسی اور زندگی 
تک کا سفر
کتنے 
عرصے میں طے 
کرتے ہو

... میں تجھے چاھتا نہیں لیکن


میں تجھے چاھتا نہیں لیکن 

جب کبھی پاس تو نہیں ہوتی
خود کو کتنا اداس پاتا ہوں
گم سے اپنے حواس پاتا ہوں
کھو سا جاتا تیری جنّت میں

میں تجھے چاھتا نہیں لیکن

پھر بھی شب کی طویل خلوت میں
تیرے اوقات سوچتا ہوں میں
تیری ہر بات سوچتا ہوں میں
کون سے پھول تم کو بھاتے ہیں
رنگ کیا کیا پسند آتے ہیں
کھو سا جاتا ہوں تیری باتوں میں
پھر بھی احساس سے نجات نہیں

سوچتا ہوں تو رنج ہوتا ہے
دل کو جیسے کوئی ڈبوتا ہے
جس کو اتنا سراہتا ہوں میں
جس کو اس درجہ چاھتا ہوں میں
اس میں تیری سی کوئی بات نہیں



میں تجھے چاھتا نہیں لیکن

Saturday, March 12, 2011

.... سرد سا ہاتھ ملانے والا


سرد سا ہاتھ ملانے والا 
تو وہی ہے ناں زمانے والا

تم مجھے یاد رکھو گے کیسے 
جب خدا بھی ہو بھلانے والا

دکھ کی مزدوری مجھے کرنا ہے 
ہے کوئی ہاتھ بٹانے والا 

رات آگے نہیں جانے والی 
ہجر بھی شور مچانے والا 

جانے اب شہر رہے یا نہ رہے
میں تو اک شخص ہوں جانے والا

شاید اک غم ہی فقط ہوتا ہے 
عمر بھر ساتھ نبھانے والا

اب زمانہ ہی نہیں ہے فرحت 
دیپ سے دیپ جلانے والا

... اثا ثے

یا دوں کے اثا ثے ہیں میر ے پاس بہت سے 
کچھ وقت گذاری کی مجھے آس تو ر ہی

...عادت




یہ پل پل تجھ کو چاہنا اب میری عادت ہے ورنہ
ہے مغرور ہم اتنے جو تجھے کب کا بھلا دیتے





.........یا د

درد، وہ آگ کہ بجھتی نہیں ، جلتی بھی نہیں .
یاد، وہ زخم کہ بھرتا نہیں،رستا بھی نہیں.

احمد راہی 




...مسافت

یہ عمر بھر کی مسافت ہے دل بڑا رکھنا 
کہ لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے رستے میں

... کُرب


کُرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے
آج فُرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے

پھر کسی نظم کی تمہید آُٹھائی جائے
پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے

کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اُترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے

اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہیں، آئینے کو دھویا جائے

موت سے خوفزدہ، جینے سے بیزار ہیں لوگ
اس المیے پہ ہنسا جائے کہ رویا جائے

Sunday, March 6, 2011

...انتہا

ابھی مَیں ابتدا کے پیچ و خم ہی سے نہیں نِکلا

کوئی کہتا ہے دل میں، ماورائے انتہا ہو تم

...جھیل سی گہری آنکھوں میں

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اِک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اِک روز کبھی ہم شام ڈھلے
...اس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اس وقت کہیں اُن آنکھوں میں اس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہو جائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہو جائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہو جائے

اس جھیل کنارے پل دو پل وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
ان جھیل سی گہری آنکھوں میں اِک شام کہیں آباد تو ہو

...دیا

روشنوں کے شہر میں 
آنکھیں
چندھیا گئی

کسی کے من میں
دیا جلاﺅ گے
تو برا مان جائیں گے

... وصل کی گھڑی

وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی
اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی
دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر
کوئی برسات کی جھڑی ہو گی
کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی
پھول کی اک پنکھڑی ہو گی
زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر
چاندنی سے صبا لڑی ہو گی
اے عدم کے مسافرو ہشیار
راہ میں زندگی کھڑی ہو گی
کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے
جاں کسی پھول کی اڑی ہو گی
التجا کا ملال کیا کیجئے
ان کے در پر کہیں پڑی ہو گی
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغر
زندگی کی کوئی کڑی ہو گی

...ہجر کے مسافر

لاکھ ضبط خواہش کے

بے شمار دعوے ہوں
اس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اسکی آہٹ پر
بر ملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے
پھر وفا کے صحرا میں
اس کے نرم لہجے اور
سوگوار آنکھوں کی
خوشبوؤں کو چھونے کی
جستجو میں رہنے سے
روح تک پگھلنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے
چاہے دل کے ہاتھوں میں
آنسوؤں کی بارش میں
ہجر کے مسافر کے
پاؤں تک بھی چھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے۔