عمر کی جھولی میں جیون نے
دیکھوں کیا کیا ڈالا ہے
کچھ وصل کے مٹھی بھر لمحے
کچھ ہجرتوں کی تنہائی
ملن کی اک انمول گھڑی
کچھ مایوسی اور رسوائی
ایک محبت یکطرفہ
اور کچھ بے چین سی راتیں ہیں
دو باتیں ان کہی ہوئی
اور جھولی بھر بھر یادیں ہیں
اب انکے ساتھ ہی جینے ہیں
جو دن دنیا میں باقی ہیں
ان تحفوں کا نہ مول کوئی
یہ ہجر رتوں کے ساتھی ہیں