محبت میں اُف کیا سے کیا ہو گئے ہم
خود اپنے سے جیسے جدا ہو گئے ہم
دمِ نزع بالیں پہ آنے کا حاصل
چلو اب ہٹو بھی ، خفا ہو گئے ہم
گراں ہے نزاکت پہ لفظِ تمنا
دھڑکتے دلوں کی صدا ہو گئے ہم
دمِ نزع بھی عشق رُسوا ہے توبہ
یہ لیجئے اب ان پہ فدا ہو گئے ہم
ارے جُرمِ اُلفت نے کیا کر دکھایا
خود اپنے کئے کی سزا ہو گئے ہم
اشاروں پہ چلنے لگے کسی اور کے
بڑے ہی نظر آشنا ہو گئے ہم
کہیں کیا بس اب آپ خود ہی سمجھ لیں
سراپا یہ لو التجا ہو گئے ہم
اثر ہے فُغاں میں نہ تاثیرِ غم میں
خود اپنے لئے بدعا ہو گئے ہم
بڑھی ہے غمِ ہجر سے اور چاہت
زمانہ یہ سمجھا جُدا ہو گئے ہم
وفاؤں کے بدلے جفا کرنے والے
ارے بے وفا باوفا ہو گئے ہم
نگاہِ محبت یہ کہتی ہے مخفی
سزا دیجئے پُر خطا ہو گئے ہم