کُرب چہرے سے ماہ و سال کا دھویا جائے
آج فُرصت سے کہیں بیٹھ کے رویا جائے
پھر کسی نظم کی تمہید آُٹھائی جائے
پھر کسی جسم کو لفظوں میں سمویا جائے
کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اُترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے
اتنی جلدی تو بدلتے نہیں ہوں گے چہرے
گرد آلود ہیں، آئینے کو دھویا جائے
موت سے خوفزدہ، جینے سے بیزار ہیں لوگ
اس المیے پہ ہنسا جائے کہ رویا جائے