وہ نگاہ میں اپنی کمال رکھتے ہیں
اُس کے جیسے کہاں اپنا جواب رکھتے ہیں
وقت بھر دے اُلفت کا زخم ا گر کبھی تو پھر
دُنیا وا لے وہی سامنے سوال رکھتے ہیں
روک پاوٴ گے نہ خود کو بربادی سے کسی طرح
خالی رہتے ہیں وہ ہاتھ جو خود میں گلاب رکھتے ہیں
منزل پہ گئے کیسے وہ ہمنوا ، یہاں تو رَت جگے میں رہتے ہیں
دل میں اُمیدیں، آنکھوں میں جو خواب رکھتے ہیں
اِس دل پہ کیا گزری ، کس سے کہیں ، کیسے کہیں
یہاں تو جس کو دیکھو، نفرتوں کے عذاب رکھتے ہیں