دِل کی ہر گلی ہر راستے پہ نام تیرا لکھ کر
نکلے جو گھر سے لے کر تیری یادوں کا سہارا
واسطہ رہا ٹھوکروں کی ناوٴ سے بارہا
پھر سِلسلہ شُروع ہوا دِل کی سزاوٴں کا
ہم تو کہتے تھے تیرے شہر کو بے مثال مگر
کھُلا ہم پہ نشیمن ہے یہ بے وفاوٴں کا
نہ جی سکا نہ مر سکا، کیا اُس کا حال بتائیں
وہ جو ہو گیا شکار چارہ گر کی اداوٴں کا
چراغِ محبت کیا جلایا دل کے آشیاں میں
میرے گھر کو ہی ہو گیا رُخ ہواوٴں کا
پکارا ہے اُس کو کئی بار دل و جاں سے مگر
ہوتا نہیں اُس پہ کچھ اثر اِس دل کی صداوٴں کا