اس موڑ سے جاتے ہیں کچھ سست قدم رستے ، کچھ تیز قدم راہیں
پتھر کی حویلی کو شیشے کے گھروندوں میں ، تِنکوں کے نشیمن تک
صحرا کی طرف جا کر اِک راہ بگو لوں میں کھو جاتی ہے چکرا کر
رُک رُک کے جھجکتی سی
اِک موت کی ٹھنڈی سی وادی میں اُتری ہے
...اِک راہ اُدھڑتی سی ، چھلتی ہو ئی کانٹوں سے جنگل سے گزرتی ہے
اِک دوڑ کے جاتی ہے اور کود کے گرتی ہے انجان خلا ؤں میں
اِ س موڑ پہ بیٹھا ہوں جس موڑ سے جاتی ہیں ہر ایک طرف راہیں
اِک روز تو یوں ہو گا اس موڑ پر آکر تم ،
رُک جا ؤ گی کہہ دو گی
وہ کون سا راستہ ہے