غریب شہر کی منزل کا پتہ کون کرے
زندگی بے وفا امیدِ وفا کون کرے
دلِ ویران کا احساس اسے کیسے ہو
جو پشیماں ہی نہیں اس سے گلہ کون کرے
اسے چاہتے رہنا اگر گناہ ہے میرا
تو اسے مانگتے رہنے کی خطا کون کرے
وہ اندازِ مسیحائی کہاں ڈھونڈوں میں
ہر پل تیرے گھائل کی دوا کون کرے
تیری یادوں کو کتابوں میں چھپا رکھا ہے
ورنہ بکھرے ہوئے پھولوں پہ نگاہ کون کرے