میں نے دل کی باتیں پوچھی تھیں
اسے خود بھی وہ معلوم نہ تھیں
وہ چھپا چھپا کے رکھتا تھا
پر اتنی بھی معدوم نہ تھیں
شاید کوئی بیچ میں حائل تھا
جو مالک اور میں سائل تھا
میری جھولی پریت سے بھرنے کو
دل اس کا بھی تو مائل تھا
لیکن کچھ سوچ کے ٹھہر گیا
اس سوچ سوچ میں پہر گیا
ہم اپنے گھر کو لوٹ آئے
دل سے اسکا نہ سحر گیا
پھر کیا کہنا کیا سننا تھا
بس اتنا سا ہی قصہ تھا
کہ اسکے دل کی دھرتی میں
میرا بھی کچھ حصہ تھا