چا ہتوں کا رکھتے ہو تم کتنا حساب جاناں
ہم نے تو تمہیں چاہا ہے بے حساب جاناں
توُ ساتھ ہو تو لگیں حزأیں جیسے ہوں بہاریں
اُلفت کی چاہ میں ہم نے سجائے کتنے خواب جاناں
سنبھال کے رکھنا ہو گا ہماری و فا کے موتی کو
بکھر جاےً نہ شبِِ ِ ہجر میں یہ شباب جاناں
شام سے سحر ہوئی سنتے سنتے کھو گئے
کوئی ہے نہیں تیری باتوں کا جواب جاناں
گِلا کرتے تجھ سے تیری بے وفائی کا تو کسطرح
تُو نے مارے پتھر تو ہم نے جانے وہ گلاب جاناں