بنا ہی بات لڑتی ہے
عقل تو نام کو نہیں
کس بات پہ اکڑتی ہے ؟
خود پہ ہی جھنجھلاتی
خود ہی سے بات کرتی ہے
کبھی کہتی ہے تم آتے کیوں نہیں
جو آیا دیکھ مجھ کو جل جل کباب ہوتی ہے
اکساتی ہے مجھے وہ بہر گفتگو
جو بات کرتا ہوں ،برا کیوں مان جاتی ہے ؟
چلو وہ ایسی ہے تو ہے
مگر وہ کیوں ایسی ہے ؟
اسے نفرت اخوت سے
لب شیریں لہجہ بات کرتی ہے
کہتی ہے محبت کچھ نہیں ہوتی
محبتوں کے گیت گاتی ہے
عداوت رکھتی ہے وہ عشقیہ افسانوں سے
بڑے ہی شوق سے الف لیلہ بھی پڑھتی ہے
کبھی میں سمجھا نہیں اس کو
وہ ہر روز مجھ سے سمجھتی ہے
اسے کہاں ہوتی کبھی فکر میری
وہ ہر روز میری ،خیر ، لیتی ہے
آفت ہے ، مصیبت ہے ،میں جل کے کہتا ہوں
مگر بے ساختہ وہ دل کو موہ لیتی ہے
بگڑتی ہے جو تجھ پے ،علی، تو کیا غم ہے
تجھی سے واسطہ اس کا ترے دل کی ٹوہ لیتی ہے