Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Sunday, October 31, 2010

...بھلی سی ایک شکل تھی

بھلے دنوں کی بات ہے

بھلی سی اک شکل تھی

نہ یہ کہ حسن طام ہو

نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو

کہکشاں سی رہ گزر لگے

مگر وہ ساتھ ہو تو پھر

بھلا بھلا سا سفر لگے

کوئی بھی رت ہو، اس کی چھب

فضا کا رنگ روپ تھی

وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی

وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدتوں جدا رہے

نہ ساتھ صبح و شام ہو

نہ رشہء وفا پہ ضد

نہ یہ کہ ازن عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں

کہ سادگی گلہ کرے

نہ اتنی بے تکلفی

کہ آئینہ حیا کرے

نہ اختلاط میں وہ رنگ

کہ بدمزہ ہوں خواہشیں

نہ اس قدر سپردگی

کہ زچ کریں نوازشیں

نہ عاشقی جنون کی

کہ زندگی عذاب ہو

نہ اس قدر کٹھور پن

کہ دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی کافی

کبھی سکوت بھی سخن

کبھی تو کشت زعفران

کبھی اداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے

معاملات دل کی بھی

وصال جاں فزا تو کیا

فراق جاں گسل کی بھی

سو اک روز کیا ہوا

وفا پہ بحث چھڑ گئی

میں عشق کو امر کہوں

وہ میری ضد سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا

وہ عشق کو قفس کہے

کہ تمام عمر کے ساتھ کو

بد تر از ہوس کہے

ہجر شجر نہیں ہے کہ

ہمیشہ پاء بہ گل رہے

نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں

گلے میں مستقل رہیں

محبتوں کی وسعتیں

ہمارے دست و پا میں ہیں

بس ایک در سے نسبتیں

ساجن بے وفا میں ہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں

کہ اک فریم میں رہوں

وہی جو من کا میت ہے

اسی کے پریم میں رہوں

تمہاری سوچ جو بھی ہو

میں اس مزاج کی نہیں

مجھے وفا سے بیر ہے

یہ بات آج کی نہیں

نہ اس کو مجھ پہ مان تھا

نہ مجھ کو اس پہ زعم تھا

جو عہد ہی کوئی نہ ہو

تو کیا غم شکستگی

سو، اپنا اپنا راستہ

ہنسی خوشی بدل لیا

وہ اپنی راہ چل پڑی

میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی

بھلی سی اس کی دوستی

اب اس کی یاد رات دن

نہیں, مگر کبھی کبھی

...تمہیں جانے کی جلدی تھی

مرے ہمدم، مرے ساتھی

تمہیں تو یاد ہی ہو گا

وہ دن کیا خاص تھا جب تم مرے جیون آئی تھیں

مری بے رنگ دنیا کو تمہاری مسکراہٹ نے ہزاروں رنگ بخشے تھے

اسے کیسے سجایا تھا تمہیں تو یاد ہی ہو گا

تمہیں میں نے بتایا تھا

کہ میں خوابوں میں رہتا ہوں مگر تم اک حقیقت ہو

محبت ہی محبت ہو

پھر اس کے بعد جیون کے سبھی موسم، سبھی منظر تمہاری آنکھ سے دیکھے

تمہارے ساتھ جو گذرے وہی پل زندگی ٹھہرے

تمہیں تو یاد ہی ہو گا،مجھے کب یاد رہتا تھا

مجھے کیا کام کرنے ہیں

مجھے کس کس سے ملنا ہے

کہاں جانا ضروری ہے

خفا کوئی ہے کیوں مجھ سے

کسے جا کر منانا ہے

مجھے کب یاد رہتا تھا

مرا معمول تو تم تھیں

تمہی سب یاد رکھتی تھیں

میں اپنے دل کی سب باتیں فقط تم سے ہی کرتا تھا

تمہاری بھی یہ عادت تھی

تمہیں تو یاد ہی ہو گا میں اکثر تم سے کہتا تھا

ابھی اس زندگی کے ساتھ کتنے روگ لپٹے ہیں

مجھے تم سے محبت کی ذرا فرصت نہیں ملتی

ذرا وہ وقت آنے دو، ذرا فرصت ملے مجھ کو

بٹھا کر سامنے تم کو تمہیں جی بھر کے دیکھوں گا

بتاؤں گا مجھے تم سے محبت سی محبت ہے

مجھے اس دم ملی فرصت

کہ جب یہ بات سننے کو نہیں تم سامنے میرے

مری جاں تم وہاں پر ہو جہاں سے لوٹ کر واپس کبھی کوئی نہیں آتا

تمہیں کیوں اتنی جلدی تھی؟

مرا اقرار سن لیتیں، مرا اظہار سن لیتیں

کہ اب فرصت ہی فرصت ہے

تمہیں جانے کی جلدی تھی

کہ اب معمول میں میرے فقط تم سے محبت ہے

مگر یہ بھی حقیقت ہے

کہ میں تاخیر سے پہنچا، تمہیں جانے کی جلدی تھی

...یقین و قیاس

رہینِ خوف نہ وقفِ ہراس رہتا ہے

مگر یہ دل ہے کہ اکثر اُداس رہتا ہے

یہ سانولی سی فضائیں یہ بے چراغ نگر

یہیں کہیں وہ ستارہ شناس رہتا ہے

اُسی کو اوڑھ کے سوتی ہے رات خود پہ مگر

وہ چاندنی کی طرح بے لباس رہتا ہے

میں کیا پڑھوں کوئی چہرہ کہ میری آنکھوں میں

تیرے بدن کو کوئی اقتباس رہتا ہے

کہاں بھلائیے اُس کو کہ وہ بچھڑ کے سَد

خیال بن کے مُحیط حواس رہتا ہے

بھٹک بھٹک کے اُسے ڈھونڈتے پھرو محسن

وہ درمیان یقین و قیاس رہتا ہے

...ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارہ نہیں ہوتا

آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا

جلوہ نہ ہو معنی کا تو صورت کا اثر کیا

بلبل گلِ تصویر کا شیدا نہیں ہوتا

اللہ بچائے مرضِ عشق سے دل کو

سنتے ہیں کہ یہ عارضہ اچھا نہیں ہوتا

تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گلِ تر سے

ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

....مجھے معلوم نہ تھا

عشق کا ناس کرو گی، مجھے معلوم نہ تھا

میرے پلے ہی پڑو گی، مجھے معلوم نہ تھا

اک مہینے میں کماتا ہوں جو تنخواہ اسے

خرچ ہفتے میں کرو گی، مجھے معلوم نہ تھا

میں نے کھائی تھی قسم، کھاؤں گا بس رزقِ حلال

تم بھی احمق ہی کہو گی، مجھے معلوم نہ تھا

شعر کی طرح سدا عرض کروں گا خود کو

تم سدا حکم ہی دو گی، مجھے معلوم نہ تھا

جو سناؤ گی، سنوں گا ہمیشہ، لیکن

شعر تک تم نہ سنو گی، مجھے معلوم نہ تھا

زندگی ہی میں مجھے دیکھنا ہوگا یہ دن

مجھ کو مرحوم لکھو گی، مجھے معلوم نہ تھا

ساری دفعات ہی ہو جائیں گی لاگو مجھ پر

اتنے الزام دھرو گی، مجھے معلوم نہ تھا

عید کے دن بھی وہی جنگ کا نقشہ ہوگا

عید کے دن بھی لڑو گی، مجھے معلوم نہ تھا

سخت جانی میں بھی نکلو گی مثالی بن کر

مار کر مجھ کو مرو گی، مجھے معلوم نہ تھا

پتہ ہوتا تو نہ کرتا کبھی کوئی نیکی

تمہی جنت میں ملو گی، مجھے معلوم نہ تھا


....اچُھوتی اُٹھان

سُورج سے جنگ کرنے کی، بادل نے ٹھان لی

کہتے ہیں اس جنوں ہی نے پھر اُس کی جان لی

پھر عہد ہم سے کر کے، نبھایا کسی کےساتھ

اِک بار پھر سے ہم نے مقدر کی مان لی

صحرا میں چاروں اور نہ چھاؤں ملی ہمیں

تب تھک کے ہم نے دُھوپ کی چادر ہی تان لی

قُدرت کی بانٹ ہوتی ہے کتنی عجیب سی

دل کو ملے ہیں تیر، کسی نے کمان لی

اس نے پلٹ کےدیکھا ہے جاتے ہوئے بتول

لگتا ہے زندگی نے اچُھوتی اُٹھان لی

...تم مِرا چین ہو جاناں

تم مِرے درد بھی، غم بھی، مِرے آلام بھی تم

تم مِرا چین ہو جاناں، مِرا آرام بھی تم

کامیابی کو نہیں ہم نے تمہیں چاہا ہے

ہم تمہارے ہیں بھلے ہو گئے ناکام بھی تم

میں مسیحا ہوں اگر، میرا وظیفہ تم ہو

میں ہو مجرم تو مِری جاں مِرا الزام بھی تم

مختلف حیلوں بہانوں سے مجھے سوچتے ہو

ایک دن کُھل کے پکارو گے مِرا نام بھی تم

رات دن تم کو فقط تم کو مجھے سوچنا ہے

میری فرصت بھی تمہی اور مِرا کام بھی تم

جس سے روشن مرا آنگن ہے تمہی ہو وہ چراغ

سچ تو یہ ہے کہ تمہی گھر ہو دَر و بام بھی تم

یہ سیاست بھی عجب کھیل ہے بھولے پنچھی

یہاں صیّاد بھی تم ہو، تو تہِ دام بھی تم

...سر تسلیمِ خم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا


پلٹ کے آنکھ نم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

گئے لمحوں کا غم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

سر تسلیمِ خم کرکے بہت کچھ مل تو سکتا ہے

سر تسلیمِ خم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

محبت ہو تو بے حد ہو، جو نفرت ہو تو بے پایاں

کوئی بھی کام کم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

میں دہشت گرد ہوتا تو اسے برباد کردیتا

مگر اس پر ستم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

میں اک اک بوندکےپیچھے،نہ بھاگاہوں نہ بھاگوں گا

سمندر یوں بہم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

عدیم انساں کی آنکھوں میں تو دنیا دیکھ سکتا ہوں

سبو کو جام ِ جم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

.....میرے ہمسفر


میرے ہمسفر! تری نذر ہیں میری عمر بھر کی یہ دولتیں

میرے شعر، میری صداقتیں، میری دھڑکنیں، میری چاہتیں

تجھے جذب کر لوں لہو میں میں، کہ فراق کا نہ رہے خطر

تیری دھڑکنوں میں اتار دوں ، میں یہ خواب خواب رفاقتیں

یہ ردائے جاں تجھے سونپ دوں، کہ نہ دھوپ تجھ کو کڑی لگے

تجھے دکھ نہ دیں میرے جیتے جی سر دشت غم کی تمازتیں

میری صبح تیری صدا سے ہو ، میری شام تیری ضیا سے ہو

یہی طرز پرسش دل رکھیں، تیری خوشبوؤں کی سفارتیں

کوئی ایسی بزم بہار ہو ، میں جہاں یقین دلا سکوں

کہ تیرا ہی نام ہے فصل گل، کہ تجھی سے ہیں یہ کرامتیں

تیرا قرض ہیں مرے روز و شب، میرے پاس اپنا تو کچھ نہیں

میری روح، میری متاع فن، میرے سانس، تیری امانتیں

.....یاد

جب سینہ غم سے بوجھل ہو اور یاد کسی کی آتی ہو

تب کمرے میں بند ہو جانا اور چپکے چپکے رو لینا

جب آنکھیں باغی ہو جائیں اور یاد میں میری بھر آئیں

پھر خود کو دھوکا مت دینا اور چپکے چپکے رو لینا

جب پلکیں کرب سے موندی ہوں اورسب سمجھیں تم سوتے ہو

تب منہ پر تکیہ رکھ لینا اور چپکے چپکے رو لینا

یہ دنیا ظالم دنیا ہے یہ بات بہت پھیلائے گی

تم سامنے سب کے چپ رہنا اورچپکے چپکے رو لینا

جب بارش چہرہ دھو ڈالے اور اشک بھی بوندیں لگتے ہوں

وہ لمحہ ہر گز مت کھونا اور چپکے چپکے رو لینا

.....تو میرا نام نہ پوچھا کر

تو میرا نام نہ پوچھا کر

میں تیری ذات کا حصہ ہوں

میں تیری سوچ میں شامل ہوں

میں تیری نیند کا قصہ ہوں

میں تیرے خواب کاحاصل ہوں

میں تیری یاد کا محور ہوں

میں تیری سانس کا جھونکا ہوں

تو منظر، میں پس منظر ہوں

میں لمحہ ہوں، ُمیں جذبہ ہوں

جذبے کا کوئی نام نہیں

تو میرا نام نہ پوچھا کر


.....یاد نہیں

آسماں تھا کہ زمیں یاد نہیں

اُس کو دیکھا تھا کہیں یاد نہیں

آسماں تھا کہ زمیں یاد نہیں

اُس کو دیکھا تھا کہیں یاد نہیں

چاند پگھلا تھا کہ لَو دیتی تھی

دُھوپ میں اُس کی جبیں یاد نہیں

تیرے اِقرار پہ دِل دھڑکا تھا

وہ گُماں تھا کہ یقیں یاد نہیں

دار کو دار کی رُت بھوُل گئی

تخت کو تخت نشیں یاد نہیں

دِل وہ برباد مَکاں ہے اَب تو

جس کو خُود اپنے مکیں یاد نہیں

جن کی کِرنوں سے دَمکتی تھی سَحر

وقت کو اَب وہ حسیں یاد نہیں

دِل پہ جب ہجر کا محشر گزرا

کون تھا دِل کے قَریں یاد نہیں

جس سے زخمی ہوُئیں آنکھیں محسن

وہ شرر تھا کہ نگیں یاد نہیں

چاند پگھلا تھا کہ لَو دیتی تھی

دُھوپ میں اُس کی جبیں یاد نہیں

تیرے اِقرار پہ دِل دھڑکا تھا

وہ گُماں تھا کہ یقیں یاد نہیں

دار کو دار کی رُت بھوُل گئی

تخت کو تخت نشیں یاد نہیں

دِل وہ برباد مَکاں ہے اَب تو

جس کو خُود اپنے مکیں یاد نہیں

جن کی کِرنوں سے دَمکتی تھی سَحر

وقت کو اَب وہ حسیں یاد نہیں

دِل پہ جب ہجر کا محشر گزرا

کون تھا دِل کے قَریں یاد نہیں

جس سے زخمی ہوُئیں آنکھیں محسن

وہ شرر تھا کہ نگیں یاد نہیں


Tuesday, October 26, 2010

.....نہيں“ کے بعد بھي کچھ لفظ ہوتے ہيں


نہيں کے بعد بھي کہنے کو سُننے کو،
بہت سے لفظ ہوتے ہيں
مگر ان کو تلاشے گا ہوئي جو باہنر ہوگا
جو لفظوں ميں چھپي دھڑکن سے جاناں باخبر ہوگا
نہيں کے بعد بھي اثبات کا امکان ہوتا ہے
مگر کچھ لوگ رستے ميں
ہي ہمت ہار ديتے ہيں
وہ لفظوں ميں چھپے معني، چھپے ارمان کيسے جان سکتے ہيں
کہ اکثر ہم ” نہيں“ ميں ”ہاں“ بھي رکھتے ہيں
مگر اِک ضد سي ہم کو ٹوک ديتي ہے
اَنا ديوار بن کر روک ديتي ہے
اور ہم يہ سوچ کر بھي ہار جاتے ہيں
کہ شايد سامنے والا،
ہمارے دل ميں جھانکے گا
”نہيں“ ميں ”ہاں“ کو بھانپے گا
ہمارا ہاتھ تھامے گا
گلے ہم کو لگائے گا، ہميں اپنا بنائے گا
ہماري مات کو وہ جيت کر دے گا،
يہ سرگم گيت کر دے گا
مگر ايسا نہيں ہوتا
”نہيں“ کو لے کے کچھ لمحے،
کہو ہوجاتے ہيں جاناں!
وہ جن کو ساتھ چلنا ہو
وہي کھو جاتے ہيں جاناں!
نہيں“ کے بعد بھي کچھ لفظ ہوتے ہيں