رہینِ خوف نہ وقفِ ہراس رہتا ہے
مگر یہ دل ہے کہ اکثر اُداس رہتا ہے
یہ سانولی سی فضائیں یہ بے چراغ نگر
یہیں کہیں وہ ستارہ شناس رہتا ہے
اُسی کو اوڑھ کے سوتی ہے رات خود پہ مگر
وہ چاندنی کی طرح بے لباس رہتا ہے
میں کیا پڑھوں کوئی چہرہ کہ میری آنکھوں میں
تیرے بدن کو کوئی اقتباس رہتا ہے
کہاں بھلائیے اُس کو کہ وہ بچھڑ کے سَد
خیال بن کے مُحیط حواس رہتا ہے
بھٹک بھٹک کے اُسے ڈھونڈتے پھرو محسن
وہ درمیان یقین و قیاس رہتا ہے
No comments:
Post a Comment