دل کو پھر بنانے میں وقت چاہیے کچھ تو
کرچیاں اٹھانے میں وقت چاہیے کچھ تو
ساتھ وہ نہیں پل کا عمر بھر کا لگتا تھا
اس کو اب بھلانے میں وقت چاہیے کچھ تو
ہو سکے تو ہم سے بھی سن سکو تو سن لو تم
بات پھر سنانے میں وقت چاہیے کچھ تو
کیا نگہ کی سیرابی ، کیا نظر کی شادابی
آنکھ کو اٹھانے میں وقت چاہیے کچھ تو
فاصلے بڑھانے میں دیر کتنی لگتی ہے
اور قریب آنے میں وقت چاہیے کچھ تو
اس قدر نہیں آساں ، جتنا ہم نے سمجھا تھا
حال دل بتانے میں وقت چاہیے کچھ تو
سب خطائیں ان کی ہم بھول بھی تو سکتے ہیں
پر گلے لگانے میں وقت چاہیے کچھ تو
دیر آشنا تم ہو ، اس قدر بھی جلدی کیا
ہم کو پھر مٹانے میں وقت چاہیے کچھ تو
دردِ دل بڑھانے کو ایک لمحہ کافی ہے
دردِ دل گھٹانے میں وقت چاہیے کچھ تو
تنکا تنکا چُن چُن کر ہم نے جو بنایا تھا
آشیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو
زخم جو پرانے ہیں ، ان کو ہم رفو کر لیں
پھر فریب کھانے میں وقت چاہیے کچھ تو
آنکھ کا سمندر سے کچھ عجیب رشتہ ہے
سیلِ غم بہانے میں وقت چاہیے کچھ تو
خاک میں ملانے کا گر ارادہ رکھتے ہو
آسماں گرانے میں وقت چاہیے کچھ تو
نیکیاں ہی کرنے میں عمر جو لگی تم کو
اس کو پھر جتانے میں وقت چاہیے کچھ تو
پھر پلٹ کے جانے کی ہم نہ رکھیں خواہش بھی
کشتیاں جلانے میں وقت چاہیے کچھ تو
جب وجود کا رستہ حد پہ موت کی پہنچے
پار اس کے جانے میں وقت چاہیے کچھ تو
اب لہو کے چھینٹوں کا اس قدر ہے چرچا کیوں
زخم کو چُھپانے میں وقت چاہیے کچھ تو
No comments:
Post a Comment