Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Saturday, January 29, 2011

...یوں ہے


عشق بس ایک کرشمہ ہے ، فسوں ہے ، یوں ہے

یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں، یوں ہے ، یوں ہے

جیسے کوئی درِ دل پر ہو ستادہ کب سے

ایک سایہ نہ دروں ہے ، نہ بروں ہے ، یوں ہے

تم محبت میں کہاں سود و زیاں لے آئے

عشق کا نام خِرد ہے نہ جنوں ہے ، یوں ہے

اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے

اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے

تو نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر

نوکِ ہر خار پے اک قطرۂ خوں ہے ، یوں ہے

ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے

روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے ، یوں ہے

شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز

یہ بھی اک سلسلۂ کن فیکوں ہے ، یوں ہے

Friday, January 28, 2011

...کل رات جانے کیا ہوا


کل رات جانے کیا ہوا
کچھ دیر پہلے نیند سے
کچھ اشک ملنے آ گئے
کچھ خواب بھی ٹوٹے ہوئے
کچھ لوگ بھی بھولے ہوئے
کچھ راستہ بھٹکی ہوئیں
کچھ گرد میں لپٹی ہوئیں
کچھ بے طرح پھیلی ہوئیں
کچھ خول میں سمٹی ہوئیں
بے ربط سی سوچیں کئی
بھولی ہوئی باتیں کئی
اک شخص کی یادیں کئی
پھر دیر تک جاگا رہا!
سوچوں میں گم بیٹھا رہا
انگلی سے ٹھنڈے فرش پر
اک نام بس لکھتا رہا
کل رات بھی وہ رات تھی
کچھ دیر پہلے نیند سے
میں دیر تک روتا رہا

Thursday, January 27, 2011

...چلو سو جائیں

ڈھل گیا چاند، گئی رات، چلو سو جائیں
ہو چکی ان سے ملاقات، چلو سو جائیں

دور تک گونج نہیں ہے کسی شہنائی کی
لٹ گئی اٌس کی بارات، چلو سو جائیں

اتنے چھینٹوں سے بھی دھویا نہ گیا داغِ الم
کیا کہے گی ہمیں برسات، چلو سو جائیں

جو ہے بیدار یہاں، اس پہ ہے جینا بھاری
مار ڈالیں گے یہ حالات، چلو سو جائیں

ہم نے کیا کچھ نہ سرِ شام کہا تم سے قتیل
اٌخرِ شب نہ مَلو ہاتھ، چلو سو جائیں

....بے نقاب

یہ خوب کیا ہے، یہ زشت کیا ہے.
جہاں کی اصلی سرشت کیا ہے .
بڑا مزہ ہو تمام چہرے .
اگر کوئی بے نقاب کر دے

.....خسارہ

کیا ہے جو ایک شخص ہمارا نہیں ہوا .
کار ِ جہاں میں کس کو خسارہ نہیں ہوا .

.....تم کو خبر ہونے تک

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جایئں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

غالب

......تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو ہم میں تُم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نِباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مِرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گِلے، شکائتیں، وہ مزے مزے کی حکائتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیان شوق کا بَرملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی بات ایسی اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم کو تُم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سُنو ذکر ہے کئی سال کا، کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذِکر کیا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کہ ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومن مُبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومن

.........اُسے بُھول جا

کہاں آ کے رُکنے تھے راستے، کہاں موڑ تھا، اُسے بُھول جا
وہ جو مل گیا اُسے یاد رکھ، جو نہیں ملا اُسے بُھول جا

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دلِ بے خبر مری بات سُن، اُسے بُھول جا، اُسے بُھول جا

میں تو گُم تھا تیرے ہی دھیان میں، تِری آس، تیرے گمان میں
صبا کہہ گئی مرے کان میں، میرے ساتھ آ، اُسے بُھول جا

کِسی آنکھ میں نہیں اشکِ غم، ترے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم
تجھے زندگی نے بُھلا دیا، تُوبھی مُسکرا، اُسے بُھول جا

کہیں چاکِ جاں کا رفو نہیں، کسی آستیں پہ لہو نہیں
کہ شہیدِ راہِ ملال کا نہیں خوں بہا، اُسے بُھول جا

کیوں اَٹا ہوا ہے غبارمیں، غمِ زندگی کے فشار میں
وہ جو درج تھا ترے بخت میں، سو وہ ہو گیا، اُسے بُھول جا

نہ وہ آنکھ ہی تری آنکھ تھی، نہ وہ خواب ہی ترا خواب تھا
دلِ منتظر تو یہ کس لیے، ترا جاگنا، اُسے بُھول جا

یہ جو رات دن کا ہے کھیل سا، اسے دیکھ، اس پہ یقین نہ کر
نہیں عکس کوئی بھی مستقل، سرِ آئینہ، اُسے بُھول جا

جو بساطِ جاں ہی اُلٹ گیا، وہ جو راستے سے پلٹ گیا
اُسے روکنے سے حصول کیا، اُسے مت بُلا، اُسے بُھول جا

تو یہ کس لیے شبِ ہجر کے اُسے ہر ستارے میں دیکھنا
وہ فلک کہ جس پہ ملے تھے ہم، کوئی اور تھا، اُسے بُھول جا

تجھے چاند بن کے مِلا تھا جو، ترے ساحلوں پہ کِھلا تھا جو
وہ تھا ایک دریا وصال کا، سو اُتر گیا، اُسے بُھول جا

امجد اسلام امجد

......قفس

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس ميں ميرا دم
آہ کرتا ہوں تو صيّاد خفا ہوتا ہے

اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر


اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر

اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر

میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر

پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

محسن نقوی

Saturday, January 22, 2011

.... لہجے


سکوتِ مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں
پھر اس نے ہم کو پکارا خدا کے لہجے میں
میں تجھ کو مانگ رہا ہوں بڑی عقیدت سے
مگر وہ درد نہیں ہے دعا کے لہجے میں
میرے شعور کی آواز پھر سے جاگ اٹھی
تمہارے نام کی کرنیں سجا کے لہجے میں
کہاں سے سیکھ لئے اہلِ درد کے انداز؟
صدائیں دینے لگے ہو قضا کے لہجے میں
غموں کی بھیڑ میں ہم کھو گئے ہیں اور حسن
کوئی بلاتا نہیں دلربا کے لہجے میں

....جاناں


میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے ماہتاب کو انت سمندر چاہے
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اترے
جیسے خوشبو کا ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہے
جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دعا آبلہ با مانگتے ہیں
میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعتِ دید نے تجھ سے تری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں کبھی دیکھ سراپا اپنا
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے
خواہشِ دید کا موسم کبھی ہلکا جو ہوا
نوچ ڈالی ہیں زمانوں کی نقابیں میں نے
تیری پلکوں پہ اترتی ہوئی صبحوں کے لئے
توڑ ڈالی ہیں ستاروں کی طنابیں میں نے
میں نے چاہا کہ ترے حسن کی گلنار فضا
میری غزلوں کی قطاروں سے دہکتی جائے
میں نے چاہا کہ مرے فن کے گلستاں کی بہار
تیری آنکھوں کے گلابوں سے مہکتی جائے
طے تو یہ تھا کہ سجاتا رہے لفظوں کے کنول
میرے خاموش خیالوں مین تکلم تیرا
رقص کرتا رہے، بھرتا رہے خوشبو کا خمار
میری خواہش کے جزیروں میں تبسم تیرا
تو مگر اجنبی ماحول کی پروردہ کرن
میری بجھتی ہوئی راتوں کو سحر کر نہ سکی
تیری سانسوں میں مسیحائی تھی لیکن تو بھی
چارہِ زخمِ غمِ دیدہِ تر کر نہ سکی
تجھ کو احساس ہی کب ہے کہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اتر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو کہ سیماب طبیعیت ہے تجھے معلوم
موسمِ ہجر ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا ہے تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تری دید کا منظر جاناں
مجھ سے مانگے گا ترے عہدِ محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں

مجھے کچھ اور کہنا تھا


وہ کچھ سنتا تو میں کپتا مجھے کچھ اور کہنا تھا
وہ پل بھر کو جو رک جاتا مجھے کچھ اور کہنا تھا

غلط فہمی نے باتوں کو بڑھا ڈالا یونہی ورنہ
کہا کچھ تھا وہ کچھ سمجھا مجھے کچھ اور کہنا تھا

کمائی زندگی بھر کی اسی کے نام کیوں کر دی
مجھے کچھ اور کرنا تھا مجھے کچھ اور کہنا تھا

کہاں اس نے سنی میری ، سنی بھی ان سنی کردی
اسے معلوم تھا اتنا مجھے کچھ اور کہنا تھا

میرے دل میں جو ڈر آیا، کوئی مجھ میں بھی در آیا
وہیں اک رابطہ ٹوٹا ، مجھے کچھ اور کہنا تھا

ترا کیا اُصول ہے زندگی؟


کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے
ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے!

جو بچھا سکوں ترے واسطے‘ جو سجا سکیں ترے راستے
مری دسترس میں ستارے رکھ‘ مری مُٹھیوں کو گلاب دے

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے‘ اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں‘ اِسے آب دے کہ سراب دے!

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے
اِسی آگ میں مجھے راکھ کر‘ اسی شعلگی کو شباب دے

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘ میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں
”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے!“

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے

.....خواہشِ سفر


نہ آسماں سے نہ دُشمن کے زور و زَر سے ُہوا
یہ معجزہ تو مِرے دَستِ بے ہنر سے ُہوا

قدم اُٹھا ہے تو پاﺅں تلے زمیں ہی نہیں
سفر کا رنج ہمیں خواہشِ سفر سے ہوا

میں بھیگ بھیگ گیا آرزو کی بارش میں
وہ عکس عکس میں تقسیم چشمِ تر سے ہوا

سیاہی شب کی نہ چہروں پہ آ گئی ہو کہیں
سحر کا خوف ہمیں آئنوں کے ڈر سے ہوا

ترے بدن کی مہک ہی نہ تھی تو کیا رُکتے
گزر ہمارا کئی بار یوں تو گھر سے ہوا

Thursday, January 20, 2011

.....محبت


محبت کب کتابوں میں لکھی کوئی حکایت ہے؟
محبت کب فراقِ یار کی کوئی شکایت ہے؟

محبت ایک آیت ہے جو نازل ہوتی رہتی ہے
محبت ایک سرشاری ہے، حاصل ہوتی رہتی ہے

محبت تو فقط خود کو سپردِ دار کرنا ہے
انالحق کہ کے اپنے عشق کا اقرار کرنا ہے

محبت پر کوئی نگران کب مامور ہوتا ہے؟
محبت میں کوئی کب پاس اور کب دور ہوتا ہے؟

میں تنہائی میں تیرے نام کے ساغر لنڈھاتا ہوں
محبت کے نشے میں ڈوب کر میں لڑکھڑاتا ہوں

مرا دل ، عشق کے شعلے میں مدغم ہونے لگتا ہے
محبت کے سمندر میں تلاطم ہونے لگتا ہے

مجھے لگتا ہے جیسے ابرِ اُلفت چھانے والا ہے
میں جس کا منتظر رہتا ہوں ، شاید آنے والا ہے

محبت میری فطرت ہے، محبت میرا جیون ہے
محبت میرے ہاتھوں کی امانت، تیرا دامن ہے

بڑی تکلیف ہوتی ہے


وہ مجھ سے روٹھ جائے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے
میرا دل ٹوٹ جائے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

جنہیں ہر دم نگاہیں ہر جگہ پر دیکھنا چاہیں
وہ ہی نظر نہ آئیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

کسی کی جستجو میں دور تک جاتی ہوئی نظر
پلٹ کر لوٹ آئے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

ہم تمہاری ہمراہی میں جن راستوں سے گزرے ہیں
ان راستوں پہ تنہا جائیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

ہماری دوستی اور ہماری چاہتوں کا آئینہ
وہ ہی نہ دیکھ پائیں تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

کسی کی نیند میں ٹھہرا حسیں خوابوں کا سلسلہ
اچانک ٹوٹ جائے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

مسلسل کام کرنے کی میری عادت پرانی ہے
تسلسل ٹوٹ جائے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے

Wednesday, January 19, 2011

.....اور بھی دکھ تھے

مجھے تیرے درد کے علاوہ بھی.
اور بھی دکھ تھے یہ مانتا ہوں.
ہزار غم تھے جو زندگی کی .
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں .
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں.
درد کی ریت چھانتا ہوں .
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر.
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے.
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں .
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے.
یہ درد موج صبا ہوا ہے .
یہ آگ دل کی سادہ بنی ہے .
اور اب یہ سری متاع ہستی .
یہ پھول یہ زخم سب تیرے ہیں
یہ دکھ کے نوحے ،یہ سنک کے نغمے .
جو کل مرے تھے اب وو تیرے ہیں .
جو تیری قربت تیری جدائی .
میں کٹ گئے روز و شب کی طرح ہیں .
وہ تیرا شاعر تیرا مغنی .
وو جس کی باتیں عجب سی تھیں .
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے .
اور ادیں غریب سی تھیں.
وہ جس کی جینے کی خواہشیں بھی .
خود اس کے نصیب سے تھیں.
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دیوانہ .
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے.
وہ کوہکن تو نہیں تھا لیکن.
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے .
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ .
اس کے سینے میں گر چکا ہے .
فراز احمد فراز

.....سختیاں


اپنے دل سے نکال کر مجھ کو
تیرے ہونٹوں پہ سسکیاں کیوں ہیں؟

زخم دے کر وہ مجھ سے پوچھتا ہے
”تیرے لہجے میں تلخیاں کیوں ہیں؟“

ہم تو کچے مکاں کے باسی ہیں
پھر تعاقب میں بجلیاں کیوں ہیں؟

عشق کے اور بھی مُسافر ہیں
صرف ہم پر ہی سختیاں کیوں ہیں؟

....اک ستارہ تجھے تکتا رہا

اپنی کرنوں میں میری آنکھ بھی شامل کرکے
اک ستارہ تجھے تکتا رہا جھلمل کرکے

زندگی ! تجھ سے بہت سادہ سوالات کیے !
زندگی! تونے وہ لوٹائے ہیں مشکل کرکے

پھر بدل ڈالیں یہ ترتیب میں رکھی سانسیں
مطمئن خود نہ ہوا خود کو میں قائل کرکے

ایسی پھر نیند کہ تعبیر کا ڈر بھی نہ رہا
بازو اک خواب کی گردن میں حمائل کرکے

دیر تک چھاؤں کی کرتا رہا باتیں طاہر
میری دھوپوں میں نئی دھوپ شامل کرکے


....جھوٹ


ہمارےا س جہان میں
سنا ہے ایسے لوگ ہیں کہ

جن کی زندگی کے دن
کھلے ہوئے گلاب ہیں
سجے ہوئے چراغ ہیں
گلاب جن کی نکہتوں کے قافلے رواں دواں
چراغ ! چار سو بکھیرتے ہوئے تجلیاں
سنا ہے ایسے لوگ ہیں ہمارے اس جہان میں
خدا کرے کہ ہوں مگر
نہ جانے کیوں مجھے یہ لگ رہا ہے

جیسے جھوٹ ہے

....عشق دریا ہے


بارہا مجھ سے کہا تھا میرے یاروں نے وصی
عشق دریا ہے جو بچوں کو نگل لیتا ہے

.....اے عشق

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تمہاری طاق میں ہیں.
اے عشق ہماری گلیوں میں نہ اور پھرو تو اچھا ہے

...اکیلا


گئے ھو ایسی راھوں میں اکیلا چھوڑ کر
کہ جن پہ ٹھیک سے مجھ کو ۔۔۔، چلنا بھی نہیں آتا

مجھے لگتا ھےجیسے میں کوئی ۔۔۔۔، وہ غم کا سُورج ھوں
کہ جس کو شام ھو جانے پہ ڈھلنا بھی نہیں آتا

.......کھیل


عشق وہ کھیل نہیں جو بچے کھیلیں
جان نکل جاتی ہے صدمات سہتے سہتے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں


لگتا نہیں ہے جی مرا اُجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں

عُمْرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں

بُلبُل کو باغباں سے نہ صَیَّاد سے گلہ
قسمت میں قید تھی لکھی فصلِ بہار میں

کہہ دو اِن حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دلِ داغدار میں

کانٹوں کو مت نکال چمن سے کہ باغباں
یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں

اک شاخ گل پہ بیٹھ کے بلبل ہے شادماں
کانٹے بچھا دئیے ہیں دل لالہ زار میں

دِن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کُنجِ مزار میں

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

......آئینہ دل


ازل سے محو ہوں آئینہ دل کی صفائی میں
تِرے قابل بناتی ہوں تِرے قابل نہیں ہوتی

......باتيں


آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سُن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے
آتی جاتی لہروں سے کيا پوچھ رہی ہے ريت؟
بادل کی دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مُکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں
راہگزر کا، موسم کا، نہ بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اِک شعلہ وقت کا آتش دان
بس اک نقشِ محبت ہے جو باقی رہتا ہے
آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

..... تلاش


یہ ذرا ذرا سی بات پر طرح طرح کے عذاب کیوں
جو کسی سے بھی خفا نہ ہو مجھےاس خدا کی تلاش ہے

مجھے لرزشوں پہ ہر گھڑی، کوئی ٹوکتا ہے بار بار
جسے کر کے دل کو دکھ نہ ہو مجھے اس گناہ کی تلاش ہے

بنا ہمسفر کے کب تلک، کوئی مسافتوں میں لگا رہے
جہاں کوئی کسی سے جدا نہ ہو مجھے اس راہ کی تلاش ہے

مجھے دیکھ کر جو اک نظر میرے سارے درد سمجھ سکے
جو اس قدر ہو چارہ گر مجھے اس نگاہ کی تلاش ہے

..... گڑیا


میں عادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

میں ارادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

ہاں مگر بات صرف اتنی سی ہے

کہتا تو ہوں

کہ تم میری ہے میری گڑیا

ہیں وہ ساری خوبیاں

بھولا پن

سادگی

بچپن،دل لگی

ہر خوشی تم سے ہے

روشنی تم سے ہے

تو جان لو اے جانِ من

میں قسمن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

میں رسمن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

ہاں مگر بات اتنی سی ہے

کہتا تو ہوں

کہ تم میں ہے میری گڑیا

ہیں وہ ساری عادتیں

نہ ہوشیاری

نہ چالاکی

معصوم شرارتیں

ہر ہنسی تم سے ہے

زندگی تم سے ہے

تو جان لو اے جانِ من

میں اخلاقن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

میں مروتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

ہاں مگر بات صرف اتنی سی ہے

کہتا تو ہوں

تو اے میری معصوم پری

تو خود سے بھی منفرد

خوبصورت، حسین

پلکوں کی لڑی

تو نہ میرے لفظوں کو سمجھ

نہ میرے انداز پہ جا ، نہ لہجے پہ

کہ لفظ تو آخر لفظ ہی ہیں

اور مجھے پسند نہیں قولِ فعل کا تزاد

تو جان لو اے جانِ من

میں مجبورن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

میں عادتن تمہیں گڑیا نہیں کہتا

ہاں بات صرف اتنی سی ہے

کہتا تو ہوں

اور اس بات کا مجھ کو اعتراف ہے

Tuesday, January 18, 2011

نہیں معلوم تھا ہمارے رشتے کا یہ انجام ہو گا

نہیں معلوم تھا ہمارے رشتے کا یہ انجام ہو گا
تو میرا نہیں رہے گا کسی اور کے نام ہو گا

تنہائی مقدر بن جائے گی خاموشی اسقدر ہو جائے گی
شام ڈھلتے ہی ہاتھوں میں جام ہو گا

یوں تو تجھ سے بھی حسین چہرے ہیں جیون میں
مگر یہ دل اب نہیں کسی کا غلام ہو گا


کسی نے جو پوچھا سبب اجڑے اجڑے رہنے کا
تیرا نام تک نہ لیا کہ تو بدنام ہو گا

لاکھ کوشش کی کہ تجھے بھلا دوں کسی صورت
پر اب تو شاید مر کر ہی یہ قصہ تمام ہو گا

میں نے جسے چاہنا تھا چاہ لیا عمر بھر کیلئے
میرا پیار اگر کوئی پانا چاہے گا وہ ناکام ہو گا

جس سے بچھڑے مدت ہوئی میں آج بھی ا’سی کا ہوں
ذرا سوچو میرے دل میں اسکا کیا مقام ہو گا

وہ میرا نہیں نہ سہی یہ لفظ تو میرے ہیں
ان میں تو اس کا ذکر صبح و شام ہو گا

ٓآج اس سے جدا ہوئے اک اور برس بیت گیا
چلو میخانے چلتے ہیں وہیں پہ اہتمام ہو گا

بھٹکتا رہوں گا در بہ در کبھی اس ڈگر کبھی اس ڈگر
وفا کے رستے کا بھلا کہاں اختتام ہو گا

مدت بعد اسنے پھر پکار ا ہے مجھے ہمایوں
سوچتا ہوں بھلا اب اسے مجھ سے کیا کام ہو گا

مجھے تم یاد آئے


مجھے تم یاد آئے
جب کوئی آہ دی سنائی مجھے تم یاد آئے
روح پہ بے بسی سی چھائی مجھے تم یاد آئے
کسی سستے کھلونے کے لیئے روتا بچہ
کبھی نظر اٹھا لائی مجھے تم یاد آئے
زندگی میں جن باتوں کا کوئی بھی مطلب
عقل کچھ نہ بنا پائی مجھے تم یاد آئے
دل کے آسماں پر درد کے بادلوں کی
جب دی گونج سنائی مجھے تم یاد آئے
تیرا درد، ذمہ داریاں لیئے زندگی
کسی در سے خالی آئی مجھے تم یاد آئے
آج بھی تجھے بھولنے کی کوشش میں اکژ
جب بھی خود سے مات کھائی مجھے تم یاد آئے
دل کی دھڑکن پیدا کرنے والے حصے میں
جب تیری تصویر پائی مجھے تم یاد آئے
دنیا میں ہر طرف پھیلے مصطرب عالم میں
جب کچھ نہ دیا سجھائی مجھے تم یاد آئے

تیری کمی مٹاتا ہے تیرا عشق بہت


تیری کمی مٹاتا ہے تیرا عشق بہت
تیری کمی مٹاتا ہے تیرا عشق بہت
ہنسوں تو رلاتا ہے تیرا عشق بہت
جیسے پنچھی طوفاں میں اپنا گھر ڈھو نڈے
ایسے یاد آتا ہے تیرا عشق بہت
ہجر کی سرد ہوا سے سلگنے والی
یادیں چھوڑ جاتا ہے تیرا عشق بہت
زندگی اس موڑ سے آگے نہ گئی
جو موڑ جتاتا ہے تیرا عشق بہت
مجھ کو تیرے قابل بنانے کے لیئے
اکژ آزماتا ہے تیرا عشق بہت

ہم لوگ بارہا قتل ہوتے ہیں

ہم لوگ بارہا قتل ہوتے ہیں
قیدی ہو کے رہا قتل ہوتے ہیں
انسانوں میں خدا ڈھونڈنے والے
بسازشِ خدا قتل ہوتے ہیں
ٹکرا کے انکے دل کی دیواروں سے
نغمے بے وجہ قتل ہوتے ہیں
محبت خون کی پیاسی ہے اس میں
روزانہ ہزارہا قتل ہوتے ہیں
جب بات مجبوریوں پر آتی ہے
کئی عشق و وفا قتل ہوتے ہیں
دل کے سلگتے ارمانوں میں یاس
کچھ لوگ سدا قتل ہوتے ہیں

Saturday, January 15, 2011

سنبھل جانا


کانٹوں سے گزر جانا شعلوں سے نکل جانا
پھولوں کی بستی میں جانا تو سنبھل جانا

دن اپنے چراغوں کی مانند گزرتے ہیں
ہر صبح کو بجھ جانا ہر شام کو جل جانا

بچوں ہی سی فطرت ہے ہم اہل محبت کی
ضد کرنا مچل جانا پھر خود ہی سنبھل جانا


وہ شخص بھلا میرا کیا ساتھ نبھائے گا
موسم کی طرح جس نے سیکھا ہے بدل جانا

چلو اب اپنے گھر جائیں


جو کچھ دیکھا جو سوچا ہے وہی تحریر کر جائیں!
جو کاغذ اپنے حصے کا ہے وہ کاغذ تو بھر جائیں!

نشے میں نیند کے تارے بھی اک دوجے پر گرتے ہیں
تھکن رستوں کی کہتی ہے چلو اب اپنے گھر جائیں

کچھ ایسی بے حسی کی دھند سی پھیلی ہے آنکھوں میں
ہماری صورتیں دیکھیں تو آئینے بھی ڈر جائیں

نہ ہمت ہے غنیمِ وقت سے آنکھیں ملانے کی
نہ دل میں حوصلہ اتنا کہ مٹی میں اتر جائیں

گُلِ امید کی صورت ترے باغوں میں رہتے ہیں
کوئی موسم ہمیں بھی دے کہ اپنی بات کر جائیں

دیارِ دشت میں ریگ ِ رواں جن کو بناتی ہے
بتا اے منزلِ ہستی کہ وہ رستے کدھر جائیں

تو کیا اے قاسمِ اشیاءیہی آنکھوں کی قسمت ہے
اگر خوابوں سے خالی ہوں تو پچھتاوں سے بھر جائیں

جو بخشش میں ملے امجد تو اس خوشبو سے بہتر ہے
کہ اس بے فیض گلشن سے بندھی مُٹھی گزر جائیں

شاعر : امجد اسلام امجد

اِک خواب پرانا

پانیوں پانیوں جب چاند کا ہالہ اُترا
نیند کی جھیل پہ اِک خواب پرانا اُترا

آزمائش میں کہاں عشق بھی پُورا اُترا
حسن کے آگے تو تقدیر کا لکھا اُترا

دھُوپ ڈھلنے لگی،دیوار سے سایا اُترا
سطح ہموار ہُوئی،پیار کا دریا اُترا

یاد سے نام مٹا،ذہن سے چہرہ اُترا
چند لمحوں میں نظر سے تری کیا کیا اُترا

آج کی شب میں پریشاں ہوں تو یوں لگتا ہے
آج مہتاب کا چہرہ بھی ہے اُترا اُترا

میری وحشت رمِ آہو سے کہیں بڑھ کر تھی
جب مری ذات میں تنہائی کا صحرا اُترا

اِک شبِ غم کے اندھیرے پہ نہیں ہے موقوف
تو نے جو زخم لگایا ہے وہ گہرا اُترا

خون رلاۓگی محبت ہمیں مجھے معلوم نہ تھا
وہ میری روح کا سرطان بنا بیٹھا ہے

حرفِ ندامت


وسعتِ چشم کو اندوہِ بصارت لکھا
میں نے اک وصل کو اک ہجر کی حالت لکھا

میں نے لکھا کہ صفحہِ دل کبھی خالی نہ ہو
اور کبھی خالی ہو بھی تو ملامت لکھا

میں نے پرواز لکھی حد فلک سے آگے
اور بے بال و پری کو بھی نہایت لکھا

میں نے دستک کو لکھا کشمکشِ بےخبری
جنبشِ پردہ کو آنے کی اجازت لکھا

میں نے خوشبو کو لکھا دسترسِ گمشدگی
رنگ کو فاصلہ رکھنے کی رعایت لکھا

زخم لکھنے کےلئے میں نے لکھی ہے غفلت
خون لکھنا تھا مگر میں نے حرارت لکھا

حسنِ گویائی کو لکھنا تھا لکھی سرگوشی
شور لکھنا تھا سو آزارِ سماعت لکھا

میں نے تعبیر کو تحریر میں آنے نہ دیا
خواب لکھتے ہوئے محتاجِ بشارت لکھا

کوئی آسان رفاقت نہیں لکھی میں نے
قرب کو جب بھی لکھا جذبِ رقابت لکھا

اتنے داؤں سے گزر کر یہ خیال آتا ہے
عظم کیا تم نے کبھی حرفِ ندامت لکھا

یار کے غم

یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے

بے تعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بے خبری آتی ہے

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گھُل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے

کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے

زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے


باتيں


چاند کبھی تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے
اور مری کھڑکی ميں آئے

بالکل تنہا اور اکيلا
ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں
ايک ہی سانس سب کی سب وہ باتيں کرلوں

جو ميرے تالو سے چمٹی
دل ميں سمٹی رہتی ہيں
سب کچھ ايسے ہی ہوجائے جب ہے نا
چاند مری کھڑکی ميں آئے، تب ہے نا


کھڑکی ، چاند ، کتاب اور میں
مدت سے ایک باب اور میں
شب بھر کھیلیں آپس میں
دو آنکھیں اک خواب اور میں
موج اور کشتی ساحل پر
دریا میں گرداب اور میں
شام ، اداسی ، خاموشی
کچھ کنکر ، تالاب اور میں
ہر شب پکڑے جاتے ہیں
گہری نیند ، تیرے خواب اور میں

تیری میری ذات


تیرا حسن ہو،میرا عشق ہو
تو پھر حسن و عشق کی بات ہو
کبھی میں ملوں،کبھی تو ملے
کبھی ہم ملیں، ملاقات ہو
کبھی تو ہو چپ،کبھی میں ہوں چپ
کبھی دونوں ہم چپ چاپ ہوں
کبھی گفتگو، کبھی تذکرے
کوئی ذکر ہو،کوئی بات ہو
کبھی وصل ہو تو دن کو ہو
کبھی ہجر ہو تو وہ رات ہو
کبھی میں تیرا،کبھی تو میرا
کبھی دونوں ہم ساتھ ساتھ ہوں
نہ نشیب ہوں نہ فراز ہوں
نہ ہی نیچ ہو، نہ ہی جات ہو
رہیں مسکراتے پیار میں
کھلیں پھول بن کر بہار میں
نہ زمین کوئی، نہ فلک کوئی
نہ وجود کوئی، نہ ہی ذات ہو
صرف تیرا حسن ہو، میرا عشق ہو
صرف اور صرف تیری میری ذات ہو

اسکے بعد


وہ اۓ بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

وہ صُورت

ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے
اُداسیاں ہوں مسلسل، تو دِل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے، فراقِ یار مگر
کوئی گُزارنے بیٹھے تو عُمر ساری لگے
علاج، اِس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے؟
کہ تِیر بن کے جِسے حرفِ غمگُساری لگے
ہماری پاس بھی بیٹھو، بس اِتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فراز تیرے جنُوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صُورت سبھی کو پیاری لگے

احمد فراز

اسے بھول جا

اے میرے دل ، اے میرے مسافر
یہاں اور اب نہ پڑاؤ کر
کل شب تیرے رو برو جو شخص تھا
تیرے خوابوں کا نہ عکس تھا
تجھے کوئی پہچانتا نہیں
تیرے چہرے پہ اٹی دھول ھے
تیری دھڑکنیں ھیں مختصر
تیرے سفر میں بڑا طو ل ھے
یہاں اور اب نہ پڑاؤ کر
اے میرے دل ، اےمیرے مسافر
یا اب گھر لوٹ چل۔

یاتو اسے بھول جا

سراب

میری قُربتیں بھی سراب ہیں
یہ بھلا ہُوا جو ملیں نہیں
تیری دُوریاں بھی عذاب ہیں
میرے دشت ِجاں سے ٹلیں نہیں

پس ِچشم ِنم وہ ضرور ہے
میرا دل جفاؤں سے چُور ہے
میری منزلوں کا قصور ہے
تیرے راستوں سے ملیں نہیں

میری ذات


ھاتھ دیا اُس نے میرے ھاتھ میں
میں تو وَلی بن گیا اِک رات میں

مجھ پہ توجہ ھے سب آفات کی
کوئی تو کشش ھے میری ذات میں

وجود

وقت کی گردش رُکے تو میں بھی دیکھوں ظفر

!.......بکھرا پڑا ہے وجود میرا کیسے ، کہاں کہاں


کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر ۔ ۔ ۔

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر کہنا اسے
وہ نہ سمجھا ہے نہ سمجھے گا مگر کہنا اسے

وقت کا طوفان ہر اک شے بہا کر لے گیا
کتنی تنیہا ہو گئی ہے رہگزر کہنا اسے

ہم سفر کی راہ میں تنہا سفر کرتے ہوئے
آگیا ہے ختم ہونے کو سفر کہنا اسے

رس رہا ہو خون دل سے لب مگر ہنستے رہیں
کر گیا برباد مجھکو یہ ہنر کہنا اسے

جسنے زخموں سے میرا شہزاد سینا بھر دیا
مسکرا کر آج پیارے چارہ گر کہنا اسے

کونپلیں پھر پھوٹ آئیں شاخ پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اک شخص

اب اس نے بھی اپنا لیے دنیا کے قرینے
سائے کی رفاقت سے ڈرتا تھا جو اک شخص

ہر ذہن میں کچھ نقش وفا چھوڑ گیا ھے
کہنے کو بھرے شہر میں تنہا تھا جو اک شخص

اختیار


میں خزاں میں ہوں تیرا منتظر
مجھے آ کے اپنی بہار دے
مجھے اپنے ہاتھ سے پھول دے
میری زندگی کو سنوار دے

یہ کشمکش سی مجھے کہیں
ہٹا نہ دے میرے مدار سے
میں بکھر رہا ہوں خیالوں میں
مجھے بازؤں کا حصّار دے

مجھے زندگی کی طلب بھی ہے
اور موت کی بھی ہے آرزو
مجھے مضطرب جو کیا ہے اب
مجھے تُو ہی تھوڑا قرار دے

میں نگاہوں میں ہوں، لبوں پہ ہوں
میں دلوں پہ بھی ہوں حکمراں
یہ سب حکومتیں چھین لے
مجھے خود پہ بس اختیار دے

Thursday, January 13, 2011

پاؤں میں چھالے

جن کے ہونٹوں پہ ہنسی پاؤں میں چھالے ہوں گے
ہاں وہی لوگ تمہیں ڈھونڈنے والے ہوں گے

مئے برستی ہے فضاؤں پہ نشہ طاری ہے
میرے ساقی نے کہیں جام اچھالے ہوں گے

شمع وہ لائے ہیں ہم جلوہ گہِ جاناں سے
اب دو عالم میں اجالے ہی اجالے ہوں گے

جن کے دل پاتے ہیں آسائشِ ساحل سے سکوں
اِک نہ اک روز طلاطم کے حوالے ہوں گے

ہم بڑے ناز سے آئے تھے تیری محفل میں
کیا خبر تھی لبِ اظہار پہ تالے ہوں گے

اُن سے مفہومِ غمِ زیست ادا ہو شاید
اشک جو دامنِ مژگاں نے سنبھالے ہوں گے

پلٹ کر پھر.


پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پکارا ہی نہیں ہے
وہ جس کی یاد سے دل کو کنارا ہی نہیں ہے

محبت کھیل ایسا تو نہیں ہم لوٹ جائیں
کہ اس میں جیت بھی ہوگی خسارا ہی نہیں ہے

کبھی وہ جُگنوؤں کو مٹھیوں میں قید کرنا
مگر اب تو ہمیں یہ سب گواراہی نہیں ہے

اب اس کے خال وخد کا ذکر کیا کرتے کسی سے
کہ ہم پر آج تک وہ آشکارا ہی نہیں ہے

یہ خواہش تھی کہ ہم کچھ دور تک تو ساتھ چلتے
ستاروں کا مگر کوئی اشارا ہی نہیں ہے

بہت سے زخم کھاکر دل نے آخرطے کیا ہے
تمھارے شہر میں اپنا گزارا ہی نہیں ہے

تجھے تجھ سے چرانا چاہتا ہوں


تجھے تجھ سے چرانا چاہتا ہوں
جنوں کو آزمانا چاہتا ہوں
ہمارے درمیاں جو موجزن تھا
وہی رشتہ پرانا چاہتا ہوں
مکاں بدلے ہے کتنے اس نگر میں
میں اب کے گھر باسانا چاہتا ہوں
سمے کی آندھیوں سے بُجھ نہ پاءے
دیا ایسا جلانا چاہتا ہوں
یہ دنیا تو بہت چھوٹی ہے علی
ترے دل میں سمانا چاہتا ہوں
تمہارا ساتھ ہو اور گیت لکھوں
میں جیون شاعرانہ چاہتا ہوں

علاجِ غمِ تنہائی

کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو

ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں
ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو

جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو

میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو

آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو

کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو

یوں گزر جاتا ہے ساگر ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو

جدائیوں کے شعر

پوچھا تھا کیا پسند ہے، تم کو میری بیاض میں
اس نے جدائیوں کے شعر چن کے سنا دئیے

میں دھیرے دھیرے بکھر گیا ھوں


عجب کشمکش کے راستے ہیں
بڑی کٹھن یہ مسافتیں ھیں
میں جس کی راہوں میں بک گیا ھوں
اسی کو مجھ سے شکایتں ھیں
شکایتں سب بجا ھیں لیکن
میں کیسے اُس کو یقیں دلاؤں
ُاسے بھلاؤں تو مر نہ جاؤں
میں اس خاموشی کے امتحاں میں
کہاں کہاں سے گزر گیا ھوں
اسے خبر بھی نہیں ھے شاید
میں دھیرے دھیرے بکھر گیا ھوں

غافل آشنا میرا



اذیتوں کے
تمام نشتر

...میری رگوں میں
اتار کر
وہ
بڑی محبت سے
پوچھتا ہے
تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی


کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہوگی

کب جان لہو ہوگی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی

کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا میخانہ
کب صبح سخن ہو گی، کب شام نظر ہو گی

واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

کب تک ابھی راہ دیکھیں اے قامت جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

آئینہ : پروین شاکر



لڑکی سرکوجھُکائے بیٹھی
کافی کے پیالے میں چمچہ ہلا رہی ہے
لڑکا،حیرت اور محبت کی شدت سے پاگل
لانبی پلکوں کے لرزیدہ سایوں کو
اپنی آنکھ سے چُوم رہا ہے
دونوں میری نظر بچا کر
اک دُوجے کو دیکھتے ہیں ہنس دیتے ہیں !
میں دونوں سے دُور
دریچے کے نزدیک
اپنی ہتھیلی پر اپنا چہرہ رکھے
کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی ہوں
سوچ رہی ہوں
گئے دنوں میں ہم بھی یونہی ہنستے تھے

اگر اِک بار ہوتا

میرے دل میرے مسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے نا آشیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا
کبھی اُس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر اِک بار ہوتا

تمھارے پاس مر جاؤں

چلو تم کہہ رہے ہو تو
میں واپس لوٹ جاتا ہوں
تمہیں منزل مبارک ہو
مگر اے ہم دم درینہ
...مجھ کو اتنا تو بتا دو
...کہ واپس کس طرف جاؤں
کہاں سے ساتھ لائے تھے
مجھے اتنا تو سمجھا دو
اگر ایسا نہیں ممکن
کہ مجھ کو اس طرح توڑو
کہ میں یکسر بکھر جاؤں
بھٹکنے سے تو بہتر ہے
تمھارے پاس مر جاؤں


Thursday, January 6, 2011

ہر ایک بات پہ ۔۔۔

پر اک بات پہ رونا آیا
مجھے نہ خود کو سمجھنا آیا
میں تو بس ڈھونڈنے نکلی تھی منزل
کہاں طوفانوں سے لڑنا آیا
لے کے پھرتی رہی شیشے کا دل
مجھے نہ پتھر کو سہنا آیا
چہرے پہ چہرے کو سجا رکھتے ہیں لوگ
مجھے نہ آنکھوں کو پڑھنا آیا
ہر ایک کو سمجھتی رہی اپنا محسن
بس اسی بات پہ ہنسنا آیا