سکوتِ مرگ کے سائے بچھا کے لہجے میں
پھر اس نے ہم کو پکارا خدا کے لہجے میں
میں تجھ کو مانگ رہا ہوں بڑی عقیدت سے
مگر وہ درد نہیں ہے دعا کے لہجے میں
میرے شعور کی آواز پھر سے جاگ اٹھی
تمہارے نام کی کرنیں سجا کے لہجے میں
کہاں سے سیکھ لئے اہلِ درد کے انداز؟
صدائیں دینے لگے ہو قضا کے لہجے میں
غموں کی بھیڑ میں ہم کھو گئے ہیں اور حسن
کوئی بلاتا نہیں دلربا کے لہجے میں