کچھ تو اے یار علاجِ غمِ تنہائی ہو
بات اتنی بھی نہ بڑھ جائے کہ رسوائی ہو
ڈوبنے والے تو آنکھوں سے بھی کب نکلے ہیں
ڈوبنے کے لیے لازم نہیں گہرائی ہو
جس نے بھی مجھ کو تماشا سا بنا رکھا ہے
اب ضروری ہے وہی شخص تماشائی ہو
میں تجھے جیت بھی تحفے میں نہیں دے سکتا
چاہتا یہ بھی نہیں ہوں تری پسپائی ہو
آج تو بزم میں ہر آنکھ تھی پرنم جیسے
داستاں میری کسی نے یہاں دہرائی ہو
کوئی انجان نہ ہو شہرِ محبت کا مکیں
کاش ہر دل کی ہر اک دل سے شناسائی ہو
یوں گزر جاتا ہے ساگر ترے کوچے سے
تیرا واقف نہ ہو جیسے کوئی سودائی ہو