پلٹ کر پھر کبھی اُس نے پکارا ہی نہیں ہے
وہ جس کی یاد سے دل کو کنارا ہی نہیں ہے
محبت کھیل ایسا تو نہیں ہم لوٹ جائیں
کہ اس میں جیت بھی ہوگی خسارا ہی نہیں ہے
کبھی وہ جُگنوؤں کو مٹھیوں میں قید کرنا
مگر اب تو ہمیں یہ سب گواراہی نہیں ہے
اب اس کے خال وخد کا ذکر کیا کرتے کسی سے
کہ ہم پر آج تک وہ آشکارا ہی نہیں ہے
یہ خواہش تھی کہ ہم کچھ دور تک تو ساتھ چلتے
ستاروں کا مگر کوئی اشارا ہی نہیں ہے
بہت سے زخم کھاکر دل نے آخرطے کیا ہے
تمھارے شہر میں اپنا گزارا ہی نہیں ہے