Dast-e-Taqdeer Se Har Shakhs Nay Hissa Paya,Mere Hissay Main Teray Saath Ki Hasrat Aai...!!

Thursday, July 28, 2011

مزا آ جائے


تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے
تشنہ کمی کی سزا دو تو مزا آ جا ئے

میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے

تم نے اِحسان کیا تھا جو ہمیں چاہا تھا
اب وہ اِحسان جتا دو تو مزا آ جائے

آپنے یوسف کی زلیخا کی طرح تم بھی کبھی
کچھ حسینوں سے ملا دو تو مزا آ جائے

چین پڑتا ہی نہیں ہے تمھیں اب میرے بغیر
اب تم مجھ کو گنوا دو تو مزا آ جائے

ایک سُونا سا چاند میرے فسانے میں رہ گیا


ایک سُونا سا چاند میرے فسانے میں رہ گیا
میں دوسروں کی شمعائیں جلانے میں رہ گیا

وہ آکے میرے شہر سے واپس بھی جا چکا
میں تھا کہ اپنے گھر کو سجانے میں رہ گیا

واپس ہوا تو گھر میرا شولوں کی زد میں تھا
میں راستوں کے دِیپ جلانے میں رہ گیا

ہر پَل فریب کھائے اور مسکرا دیا
اور یہ رواج میرے گھرانے میں رہ گیا

دنیا سے ساری عمر تعرف نہ ہو سکا
میں خود کو خود سے ملانے میں رہ گیا

Monday, July 25, 2011

کتاب تقدیر


شاید کہ وہ لکھ ہی دے
مجھے تیرے حق میں
تو کتاب تقدیر سے
ذرا اصرار تو کر

Sunday, July 24, 2011

وہ کہتی تھی


وہ کہتی تھی
تو سمندر ہےمیں ساحلوں کی ہوا
میں نے سوچا ہی نہیں
سمندر کب کسی کو ملتا ہے


بارش کی دُعا


اس نے مٹی کی دیوار پر
کچے رنگوں کے ساتھ
میرا نام لکھ کر
بارش کی دُعا مانگی ہے۔۔۔
!!!

شکوہ


میں نے تم سے تمہیں مانگا
تو تم مسکرادیئے
تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے
کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اپنی چیزیں مانگا نہیں کرتے۔ ۔ ۔

دنیا سرائے


تمہاری دنیا
مگر میری سرائے
جیسی بھی ہے غنیمت ہے
یہاں بس ایک رات ہی تو گزارنی ہے
انتظار سحر کی رات

پانی اور پیاس


میں زندگی سے پوچھتی ہوں
یہ مجھ سے کیا چاہتی ہے
اور زندگی مسکراتی ہے
میں حیران ہوں
پانی بے رنگ
اور پیاس کے اتنے رنگ


تجزیہ


دو طرح کے لوگ محبت نہیں کرتے
ایک میرے اور ایک تمہارے جیسے
ایک تم ہو کہ
تمہیں میرے باطن کا حسن نظر نہیں آتا
اور ایک میں ہوں کہ
میں تمہیں آر پار دیکھتی ہوں
تمہارے اور میرے جیسے لوگ محبت نہیں کرسکتے


شاید


زندگی کے رستے میں
شام ہوگئی شاید
ہاتھ تھام کر میرا
شبنمی فضاؤں کی
سمت لے کے آتا ہے
درد مُسکراتا ہے

کوششیں


تمہیں دل سے بھلانے کی
شعوری کوششیں کرکے
تمہیں نہ یاد کرنے کی
ضروری کوششیں کرکے
میں خود ہی تھک گیا ہو ں اب
ادھوری کوششیں کرکے

عاطف سعید

تلاش


ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو
ان فضول باتوں میں
کس لئے الجھتے ہو
جس کو ملنا ہوتا ہے
بن لکیر دیکھے ہی
زندگی کے راستوں پر
ساتھ ساتھ چلتا ہے
پھر کہاں بچھڑتا ہے
جو نہیں مقدر میں
کب وہ ساتھ چلتا ہے
ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو۔ ۔

تمنا


عمر کا وہ حصہ کہ جہاں
میں اور احساس دونوں جوبن پہ تھے
میں نے تم کو پانے کی تمنا میں
دونوں کو بوڑھا کر ڈالا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سعدیہ بلوچ

Thursday, July 21, 2011

کوئی موسم ہو وصل وہجر کا


کوئی موسم ہو وصل وہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں

کبھی دل کے صحیفے پر
تجھے تصویر کرتے ہیں
کبھی پلکوں کی چھاں میں
تجھے زنجیر کرتے ہیں
کبھی خوابیدہ شاموں میں
کبھی بارش کی راتوں میں

کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں

تری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں

خاص انداز


راستوں کی حدیں
اک زرا سکھہ کا باعث ہوئیں تو۔
مسافت بڑے خاص انداز سے ہنس پڑی

فقط اک شائبہ ہی تھا محبت کا


بہت تاخیر سے لیکن
کھلا یہ بھید خود پر بھی
کہ میں اب تک
محبت جان کر جس
جذبہِ دیرینہ کو اپنے لہو سے سینچتی آئی
وہ جس کی ساعت صد ِ مہرباں ہی زندگی کی شرط ٹھہری تھی
فقط اک شائبہ ہی تھا محبت کا
یونہی عادت تھی ہر رستے پہ اس کے ساتھ چلنے کی
وگرنہ ترکِ خواہش پر
یہ دل تھوڑا سا تو دُکھتا
ذرا سی آنکھ نم ہوتی

تقدیر ہماری تھی


کردار تھے ہم جس کے
وہ کھیل محبت کا
جس شخص نے لکھا تھا
اس شخص نے جو چاہا
وہ کر کے دکھایا بھی
اور آخری منظر میں
اس کھیل میں باقی تھا
جو رنگ جدائی کا
وہ بھر کے دکھایا بھی
جو کچھ بھی ہوا اس پر
کیا اس کے سوا کہنا
بے بس تھے یہی اے جاں
تقصیر ہماری تھی
تحریر کسی کی تھی
تقدیر ہماری تھی

لیکن چاند کو سونا ہوگا۔


جس کروٹ لیٹے تھے ہم تم
چاند تمھاری پیشانی کو چوم رہا تھا
دیکھو جاناں
چاند وہاں سے ہجرت کرکے
پیروں تک آپہنچا ہے
سوجاؤ اب
باقی باتیں کل کرلینگے
میرا کیا ہے ؟
لیکن چاند کو سونا ہوگا۔

وصي شاه

وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ


گر نہیں وصل تو یہ خواب رفاقت ہی ذرا دیر رہے
وقفئہ خواب کے پابند ہیں
جہاں تک ہم ہیں
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں سارے منظر
(تیرگی ذاد کو سورج ہے فنا کی تعلیم)
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کا پل نہ رہے
کچھہ نہ رہے
وقت سے کون کہے
یار ذرا آہستہ

امجد اسلام امجد

بھول جاؤ


بھول جاؤ کہ
اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے؟
یہی نا!
دو چار ملاقاتیں
ادھورے شکوے
ادھوری باتیں
اور کچھہ اداس شامیں
چند ٹوٹی ہوئی امنگیں
فون کی بے ربط کالیں
اور کیا ہے اپنے ماضی میں؟
بھول جاؤ ۔ ۔ ۔
علیم اقبال

گمان


اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اترتی
چاندنی کی چاپ سنتی ہوں
گماں ہے
آج بھی شاید
میرے ماتھے پہ تیرے لب
ستارے ثبت کرتے ہیں

پروین شاکر

پیار

ابرِ بہار نے
پھول کا چہرا
اپنے بنفشی ہاتھ میں لے کر
ایسے چوما
پھول کے سارے دکھ
خوشبو بن کر بہہ نکلے ہیں

پروین شاکر

مقدّر

میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گھونگھٹ اُٹھا کے یہ کہہ دے ۔۔
میرا سب کچھ ترا ہے ، دل کے سوا !

پروین شاکر

وچھوڑا آپ روتا ہے


تعلق توڑنے والے تو شائد بھول جاتے ہیں
کہ آنے والی ہر رت سے
گلے ملتے ھیں وہ تنہا
مگر تنہا نھیں روتے
بہت بے کل بہت مغموم اور بے تاب ہوتا ہے
وچھوڑا آپ روتا ہے
فاخرہ بتول

کام


سنو ایک کام ھے تم سے
میرا وہ کام تم کردو
جو سینے میں دھڑکتا ہے
مجھے وہ دل نہ دو لیکن
جو چاہت اس کے اندر ہے
وہ میرے نام تم کردو

میں زندگی سے پوچھتی ھوں


میں زندگی سے پوچھتی ھوں
یہ مجھ سے کیا چاھتی ھے
اور زندگی مسکراتی ھے
میں حیران ھوں
پانی بے رنگ
اور پیاس کے اتنے رنگ


ہم ہی نادان تھے


ہم ہی نادان تھے
سوچا کرتے تھے یہ
کیسے ہو سکتا ہے
ایک وعدہ شکن
اپنی نادانی پر
اب پشیمان نہ ہو
بیتی رُت کے لئے
وہ اکیلا بھی ہو
اور پریشان نہ ہو

میرے کچھ لفظ ایسے ھوں

میرے کچھ لفظ ایسے ھوں
جو اپنی بند آنکھوں سے
تیرے دل کی ھر اک تحریر پڑھتے ھوں
وہ ھوں تو لفظ لیکن اپنی اک تقدیر رکھتے ھوں
کبھی جو روٹھ جاؤ تم
نہ مجھ سے مان پاؤ تم
تو پھر تم کو منانے کی وہ ھر تدبیر رکھتے ھوں
میرے کچھ لفظ ایسے ھوں

بس اتنا یاد ہے


دعا تو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جن میں ایک مری تھی
اور اک تمھاری !

پروین شاکر

باتیں بے معنی ھوتی ھیں


باتیں بے معنی ھوتی ھیں
عشقِ لا حاصل میں کیا کھیئے
اکثر وجدان و عرفان
پا کربھی
اپنی ذات کی باتیں بے معنی ھوتی ھیں

جب دل میں سویرے ھوں روشن
اِک محرمِ جاں کی یادوں سے
تب ھجرِ بد ذات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں

جب دل کے بنجر صحرا کو
اشکوں کا پانی راس آتا ھو
وھاں بِن بادل برسات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں
جذبوں کے کھیل میں
بساطِ حیات پر جب دل
داؤ پر لگتے ھوں

وھاں جیت اور مات کی باتیں
بے معنی ھوتی ھیں

انا


کئی برسوں سے ایسا ہے
کہ اِک ویران رستہ ہے
جو برسوں سے
ہمارے بیچ حائل ہے
انا کے خون میں لِپٹی
وہ اک جانب کھڑی ہے اور
انا کے خول میں لِپٹا
اسی ویران رستے کے کنارے
دوسری جانب
نجانے کتنے برسوں سے
اکیلا میں کھڑا ہوں

چاہتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں


چاہتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ھائے خیال
جو تمہاری ھی سمت کھلتے ھیں
بند کر دوں کہ کچھ اسطرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آنہ سکے
چاھتا ھوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں
جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا

Sunday, July 17, 2011

شامِ تنہائی میں

شامِ تنہائی میں
اب بھی شاعر رہوں؟
کس کی خاطر رہوں؟
کون ہے جو مرے لفظ و معنی کی آنکھوں سے بہتے؟
آنسوؤں میں چُھپے درد چُنتا پِھرے؟
خواب بُنتا پِھرے ؟
کون ہے جو مرے خون ہوتے ہوئے دل کی آواز پر؟
اپنی آواز کے ہونٹ رکھتا پِھرے؟
کون آنکھیں مری دیکھ کر یہ کہے؟
کیا ہوا جانِ جاں؟
کب سے سوئے نہیں؟
اِس سے پہلے تو تم اِتنا روئے نہیں؟
اب بھلا کس لئے خُوبصورت سی آنکھیں پریشان ہیں؟
اپنی حالت پہ خود اتنی حیران ہیں؟
کون بے چین ہو؟
کون بے تاب ہو؟
موسمِ ہجر کی شامِ تنہائی میں، آبلہ پائی میں
کون ہو ہمسفر، گرد ہے رہگزر
کوئی رستہ نہیں، کوئی راہی نہیں
در پہ دستک کی کوئی گواہی نہیں
دل کے برباد و ویران صفحات پر
جس قدر لفظ لکھے تھے بے کار ہیں
ایک لمبی جُدائی کے آثار ہیں
سوچتا ہوں کہ اب
اِن خیالوں سے خوابوں سے باہر رہوں
کیوں میں شاعر رہوں؟
کس کی خاطر رہوں؟

اے شب تنہائی


اے شب تنہائی
اسے جو بڑے سکھ میں ھے
اسے کہنا
کہ رات کا پچھلا پہر ھے
اور ھم جاگتے ھیں
ہماری آنکھوں سے نیند کوسوں دور ھے
ھمارے لب ابھی تک اس کے نغمے گنگناتے ھیں
ھمارا ذہن اب بھی اس کی باتیں سوچتا ھے تو
کبھی ھم ہنس دیتے ہیں
کبھی جی بھر کے روتے ھیں
شب تنہائی کی یخ بستہ ہواؤ
اسے کہنا
ہم ابھی بھی باضو ہو کر تمھارا نام لیتے ھیں
اسے کہنا یا اپنا نقش دھو جائے
یا پھر سے اپنا ھو جائے

...نہ جانے پھر کیوں!


میں جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہوں
نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے
نہ خال و خد کا جمال اس میں، نہ زندگی کا کمال کوئی
جو کوئی اُس میں ہُنر بھی ہوگا
تو مجھ کو اس کی خبر نہیں ہے
...نہ جانے پھر کیوں!
میں وقت کے دائروں سے باہر کسی تصوّر میں اُڑ رہا ہوں
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز
مرا لہو اپنی گردشوں میں اسی کی تسبیح پڑھ رہا ہے
جو میری چاہت سے بے خبر ہے
کبھی کبھی وہ نظر چرا کر قریب سے میرے یوں بھی گزرا
کہ جیسے وہ باخبر ہے
میری محبتوں سے
دل و نظر کی حکایتیں سن رکھی ہیں اس نے
مری ہی صورت
وہ وقت کے دائروں سے باہر کسی تصوّر میں اُڑ رہا ہے
خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوت ِ بزم میں شب و روز
وہ جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہے
مگر نہیں جانتا یہ وہ بھی
کہ ایسا کیوں ہے
میں سوچتا ہوں، وہ سوچتا ہے
کبھی ملے ہم تو آئینوں کے تمام باطن عیاں کریں گے
حقیقتوں کا سفر کریں گے

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے


جب وہ کھلِتے گلاب جیسا تھا
اُسے کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
......اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خدوخال اُس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا

بولتا تھا زباں خوشبو کی
لوگ سُنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے، کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورت ِسایہ و سحاب تھا وہ

اپنی نیندیں اُس کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اُس کے، میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشت ِہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر، اِن دنوں وہ کیسا ہے

میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے

سنو جاناں


سنو جاناں یہ سچی بات بھی سن لو۔۔۔

میری سوچوں کے کمرے میں تیرے یاد کے جگنو،
بہت بے جان لگتے ہیں۔
تم پر نظم کا لکھنا،
تمہیں اک بزم کا لکھنا
وہ اپنے عزم کا لکھنا،
مجھے اب بور کرتے ہیں۔
میری سوچوں کے آنگن میں مسائل کے کئی بچے بھت ہی شور کرتے ھیں
تمہیں تیزی سے جان جاں بھلاتا جا رہا ہوں،
اب گرزے وقت کے قرضے چکاتا جا رہا ہوں۔۔۔۔۔
میری ماں نے کئی برسوں سے جو خواب دیکھا ھے،
مجھے وہ خواب لانا ہے،
میرے بابا کے کندھوں سے ہمارے بوجھ کا تھیلا ابھی گرنے ہی والا ھے،
مجھے وہ بھی اٹھانا ھے،
میں ماں کے خواب کی خاطر، نئی اک جاب کی خاطر،
صبح گھر سے نکلتا ہوں ، تو سارا دن پگھلتا ہوں،
نہ تم رہتی ہو سوچوں میں ، نا تیرا عکس رھتا ھے،
وھاں پر تو مسائل کا ھمیشہ رقص رھتا ھے،
وہ جسے ھم بھوک کہتے ھیں ، وہ اک شخض رھتاھے،
یہ شخض میرے جاں مجھے بھت ھی تنگ کرتا ھے،
میں تم کو یاد کرتا ھوں تو مجھ سے جنگ کرتا ھے،
یہی اک شخض میری جاں، مجھے سونے نہیں دیتا،
تمہارے حسن کی یادوں میں مجھے کھونے نہیں دیتا،
تیرا ھونے نہیں دیتا ،
مجھے معلوم تھا جاناں، کبھی ایسا تو ھونا تھا،
تمہیں اک دن تو کھونا تھا ، مجھے پھر خوب رونا تھا ،
کبھی ایسا تو ھونا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنو جاناں۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔

جوگی


دیر ہوئی جب میں چھوٹا سا اک بچہ تھا
راہ میں مجھ کو ایک جوگی نے روکا تھا
تیرے ہاتھ کی ریکھا دیکھنا چاہتا ہوں
ماتھے پہ تیرے جو لکھا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہوں
یہ کہہ کر تھام لی اس نے میری ہتھیلی
جیسے بوجھے کوئی پہیلی
بہت دیر تک وہ مجھ کو تکتا رہا
پھر اک آہ بھری اور کہنے لگا
بالک یہ جو تیرے ہاتھ کی ریکھا ہے
اس میں میں نے تیرا جیون دیکھا ہے
تیرا من اک سندر ناری توڑے گی
اک سپنا بھی نا پاس تیرے چھوڑے گی
رو رو کے ہاتھ تو بڑھائے گا
لیکن چندا ہاتھ تیرے نہ آئے گا
دکھ کا اتنا لمبا ساتھ نہیں دیکھا
میں نے اب تک ایسا ہاتھ نہیں دیکھا
دکھ ہی دکھ تیرے حصے میں آیا ہے
بالک یہ تو کیا لکھوا لایا ہے

ابنِ انشا

فضا


تمہاری یادوں سے با وضو ہے
ہواؤں میں تمہارے پیار کا نور
اذان کی طرح تحلیل ہو چکا ہے
رات کے مصلے پر
تمہارے دھیان کے حجرے میں
خامشی نماز نیتے کھڑی ہے
اور میں
میں اس بے لفظ نماز کا
لفظ لفظ بن کر
تمہارے ماتھے کا کعبہ چومتا ہوں
میں پھر سے تم کو یاد کرتا ہوں
تیرے دھیان کے حجرے میں

ہجر کی صبح


ہجر کی صبح کے سورج کی اداسی نہ پوچھ
جتنی کرنیں ھیں وہ اشکوں کی طرح پھوٹتی ھیں

تجھ سے پہلے بھی کئی زخم تھے سینے میں مگر
اب کے وہ درد ھے دل میں کہ رگیں ٹوٹتی ھیں

رات پھر اشک رھے دامن مثرگاں سے ادھر
کشتیاں شب کو کناروں سے کہاں چھوٹتی ھیں

گاؤں کے تنہا اندھیروں کی طرف لوٹ چلو
شہر کی روشنیاں دل کا سکوں لوٹتی ھیں

کشکول

جب ہر سُو رنگ سے پھیل گئے
امیدوں کا کشکول اُٹھائے من اپنا بھی پھر چل نکلا
پھر آتے گئے ہمدرد مرے اور بھرتا گیا کشکول میرا
ہر لفظ دُعا کا تھا اس لمحے اور ہر بول میرا
لوٹ آیا دل اپنا من کی چوکھٹ پہ
بے چین بہت تھا دل میرا کہ نہ جانے اب کیا راز کھلے
دل خوش تھا کہ آج تو خوشیاں جیت گئیں اور آج تو غم ہار گئے
لیکن جب کشکول میں جھانکا تو دیکھا
وہاں آہیں تھیں وہاں آنسو تھے
کچھ ٹوٹے دل بے قابو تھے
وہاں خوشیوں اک کا نام نہ تھا
بس اشکوں کی برسات ملی
یاروں سے ہے یہ کیسی سوغات ملی
پھر ٹوٹا جام اور چھلکی آنکھیں
تھیں قسمت میں اب لمبی راتیں
جب یاروں نے دل توڑ دیا
پھر کیسے قصے کیسی باتیں
آخر بے بس ہو کر دل نے یہ جان لیا
یہاں خوشیوں کے سب ساتھی ہیں
یہ غم کو بٹانا کیا جانیں

اے دلِ بے ہنر


اے دلِ بے ہنر
پھول کی پتیاں نوچ کر
نہ آ سکا قرار کیوں
کہ لوٹنا تھا جس کو گھر
نہ آ سکے گا وہ کبھی
تو پھر یہ انتظار کیوں

سانپ سیڑھی کا کھیل


میں بھی ایک پہ وہ بھی ایک پہ
اسے سیڑھی ملی وہ چڑھ گیا
مجھے راستے میں ہی ڈس لیا
میرے بخت کے کسی سانپ نے
بڑی دور سے پڑا لوٹنا
زخم کھا کے اپنے نصیب کا
وہ ننانوے پہ چلا گیا
میں دس کے پھیر میں گھر گیا
میں بڑھا تو بڑھتا ہی گیا
اسے ایک نمبر تھا چاہیے
جو نہیں ملا سو وہ نہیں ملا
بس ایک چوکے کی بات تھی
اسے جیتنا میری مات تھی
میں نے جان کے گوٹ غلط چلی
اور سانپ کے منہ میں ڈال دی
کبھی سوچنا یہ دوستو
یہ جو پیار ہے
سانپ سیڑھی کا کھیل ہے

اے غزالِ شب


اے غزال شب
تیری پیاس کیسے بُجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب جو میری جاں میں ہے؟
وہ سراب ساحر خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں
فریب رہرو سادہ ہے
وہ سراب زادہ، سراب گر، کہ ہزار صورتِ نو بہ نو
میں قدم قدم پہ ستادہ ہے
وہ جو غالب و ہمہ گیر دشتِ گماں میں ہے
میرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا
میرے ہست و بُود پہ چھا گیا
اے غزالِ شب
اسی فتنہ کار سے چُھپ گئے
میرے دیر و زُود بھی خواب میں
میرے نزد و دُور حجاب میں
وہ حجاب کیسے اُٹھاؤں میں جو کشیدہ قالبِ دل میں ہے
کہ میں دیکھ پاؤں درونِ جاں
جہاں خوف و غم کا نشاں نہیں
جہاں یہ سرابِ رواں نہیں
اے غزالِ شب
ن م راشد

آنکھیں کالے غم کی



آنکھیں کالے غم کی
اندھیرے میں یُوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی
جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا
آنے والے جابر کا
سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے
سب کے ہونٹوں پر تالے
سب کے دلوں میں بھالے
اندھیرے میں یُوں چمکے دانت بھی غم کے
جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے
سر پر ابنِ آدم کے غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا
یا جلتا بُجھتا شرارا
جو رستے میں آیا سو مارا
غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے
خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے
خلقت نکلی پھر گھر سے
بستی والے بول اُٹھے، اے مالک، اے باری
کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری
کب ہو گا فرماں جاری؟
ن م راشد

چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے


چپ چپ رہ کر
ہر دکھ سہہ کر
کیا ثابت کرنا ہے تم کو؟
یہی کہ ہر دکھ سہہ سکتے ہو
یہی کہ تنہا جی سکتے ہو
کیا جانو تم کیا ہو جاناں؟
چپ چپ رہ کر ہر دکھ سہہ کر
کچھ ثابت کر پاؤ گے نا
کیا تم کو معلوم نہیں؟
چہرہ دل کا آئینہ ہوتا ہے

مر گئی زندگی کہیں اندر


مر گئی زندگی کہیں اندر
روح کا ارتعاش ختم ہوا
آپ کے بس میں تھیں مری خوشیاں
آپ کے اختیار میں غم تھے
ایک میں ہی تھا اپنے آپ کے پاس
آپ نے چھین ہی لیا مجھ سے
درد کی راہ روکنے والے
اضطرابی مزاج ہوتے ہیں
ڈھونڈتے ڈھونڈتے طمانت
تیری گلیوں میں شام ڈھل آئی

گفتگو


کرتا ہوں ٹیلیفون اس نمبر پہ میں
اس کو بس "انگیج" ہی پاتا ہوں میں
مصروف ہی پاتا ہوں میں
پوچھتا ہوں تب میں اربابِ ٹیلیفون سے
کیوں کوئی پتّہ اُدھر ہلتا نہیں؟
کیوں مرے دل کا کنول کِھلتا نہیں؟
کیوں فلاں بجز مجھے ملتا نہیں؟
اُس طرف سے تب یہ ملتا ہے جواب
یہ تو نمبر آپ ہی کا ہے جناب
دوسروں سے بات بے شک کیجئے
خود سے ملنے کی نہ کوشش کیجئے
آدمی خود سے مخاطب ہو سکے
آج کی مصروف دنیا میں کہاں ممکن ہے یہ؟

چاند پر


وہاں کون تھا؟
کس سے کہتے کہ ہم
بستیوں میں رہے
پر اکیلے رہے
کس سے کہتے کہ ہم
چھوڑ کر بستیاں
بھاگ کر آئے ہیں
کس سے کہتے کہ ہم
اپنی تنہائیاں
ساتھ ہی لائے ہیں
وہاں کون تھا؟

دُوری کے جو پردے ہیں


دُوری کے جو پردے ہیں ٹک ان کو ہٹاؤ نا
آواز ہے مدماتی ، صُورت بھی دکھاؤ نا
راہوں میں بہت چہرے نظروں کو لُبھاتے ہیں
بھر پور لگاوٹ کے جادو بھی جگاتے ہیں
ان اجنبی چہروں کو خوابوں میں بساؤ نا
ان دور کے شعلوں پر جی اپنا جلاؤ نا
ہاں چاندنی راتوں میں جب چاند ستاتا ہے
یادوں کے جھروکے میں اب بھی کوئی آتا ہے
وہ کون سجیلا ہے؟ کچھ نام بتاؤ نا
اوروں سے چُھپاتے ہو ہم سے تو چُھپاؤ نا
ابنِ انشاء

فردا


ہاری ہوئی روحوں میں
اِک وہم سا ہوتا ہے
تم خود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دھرا کیا ہے؟
امروز حقیقت ہے
فردا کی خدا جانے
کوثر کی نہ رہ دیکھو
ترساؤ نہ پیمانے
داغوں سے نہ رونق دو
چاندی سی جبیوں کو
اُٹھنے کا نہیں پردا
ہے بھی کہ نہیں فردا
ابنِ انشاء

مِلن ممکن نہیں


مقدر کے ستاروں پر
اُداسی کی لکیریں ہیں
کوئی سرگوشیاں کر دے
ہمیں خوش فہمیاں دے دے
مِلن کی سب بہاروں کے
سبھی موسم تمہارے ہیں
مگر ہم جانتے ہیں سب
مقدر کے ستاروں پر
اُداسی کی لکیروں نے
فقط اتنا ہی لکھا ہے
بہت ہی خوب لکھا ہے
تمہیں سورج کہا ہے
ہمیں مہتاب لکھا ہے
مِلن ممکن نہ ہو جن کا
وہ صبح و شام لکھا ہے

چند لمحے وِصال موسم کے


درد کی ایک بے کراں رُت ہے
حبس موسم کا راج ہر جانب
چند لمحے وِصال موسم کے
وہ نشیلی غزال سی آنکھیں
کوئی خُوشبو سیاہ زُلفوں کی
لمس پھر وہ حِنائی ہاتھوں کا
کوئی سُرخی وفا کے پیکر کی
پھر سے شِیریں دہن سے باتیں ہوں
دل کی دُنیا اُداس ہے کتنی
کوئی منظر بھی اب نہیں بھاتا
چند لمحے وِصال موسم کے
آصف شفیع

ہم مسافر ہیں میری جان


ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مٹائیں جو لہُو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں
ہم مسافر ہیں
کرایوں کو ترستے ہوئے خیموں میں گھِرے
گھر سے گھبرائے ہوئے یونہی ہوا کرتے ہیں
اجنبی شہروں کے واہموں میں پڑے
خوف اور عدم تحفظ سے چُراتے ہیں نگاہیں
تو کہیں اور ہی جا پڑتے ہیں
کب تلک کون ہمیں رکھے گا مہمان محبت کے سِوا
اور کسی روز ہمیں یہ بھی کہے گی کہ خدا ہی حافظ
ہم جو لوگوں سے جھجھکتے ہیں تو مجبُوری ہے
ہم جو رستوں میں بھٹکتے ہیں تو محصُوری ہے
ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم اگر تجھ سے بچھڑتے ہیں تو مہجُوری ہے

فرحت عباس شاہ

صدیوں سے اجنبی


اُس کی قُربت میں بِیتے سب لمحے
میری یادوں کا ایک سرمایہ
خُوشبوؤں سے بھرا بدن اُس کا
قابلِ دید بانکپن اُس کا
شعلہ افروز حُسن تھا اُس کا
دِلکشی کا وہ اِک نمونہ تھی
مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی
خواہشوں کے چمن میں ہر جانب
چاہتوں کے گُلاب کِھلتے تھے
اُس کی قُربت میں ایسے لگتا تھا
اِک پری آسماں سے اُتری ہو
جب کبھی میں یہ پُوچھتا اُس سے
ساتھ میرے چلو گی تم کب تک
مجھ سے قسمیں اُٹھا کے کہتی تھی
تُو اگر مجھ سے دُور ہو جائے
ایک پل بھی نہ جی سکوں گی میں
آج وہ جب جُدا ہوئی مجھ سے
اُس نے تو الوداع بھی نہ کہا
جیسے صدیوں سے اجنبی تھے ہم
آصف شفیع

ایک بے کار آنسو کی صورت


ایک بے کار آنسو کی صورت

ہم نے دل سے محبت کو رُخصت کیا
اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جئے
خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے
ایک شعلہ بنے
تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے
بے حسوں کی حفاظت رہے
خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں
رقص جاری رہے
تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں
ایک تالی سے سب کچھ بدلتا رہے
جتنے ایوان ہیں
دوسروں کے اشاروں کی تعظیم میں
سر ہلاتے رہیں
ہم نے دل سے محبت کو رُخصت کیا
ایک شعلہ بنے
تاکہ بیٹوں کے لاشے تڑپتے رہیں
بین کرتی ہوئی بیٹیوں سے پرے
اپنے کشکول ہاتھوں سے لکھے ہوئے
عہد ناموں کی تحریر پڑھتے رہیں
ہم سے بہتر تھے وہ
جن کے ٹکڑے ہوئے
جو جنازوں کی صورت اُٹھائے گئے
ایک بے کار آنسو کی صورت گرے
ہم وہ تلوار تھے
جو عجائب گھروں کے لئے رہ گئی
ایسی بندوق تھے
جس کو مفلوج ہاتھوں میں سونپا گیا
اقبال نوید

موت کیوں ضروری ہے

موت کیوں ضروری ہے
حاکمِ شہر بتا
وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ہے

کیا یہ ظلم تھوڑا ہے ؟

درد کے جزیروں نے
آرزو کے جیون کو
مقبروں میں ڈالا ہے
ظلمتوں کے دائرے ہیں

درد جیون ہے
شبنمی سی پلکیں ہیں
قرب ہے نہ دوری ہے
زندگی ادھوری ہے

اب یقین آیا کہ
موت بھی ضروری ہے

تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں


تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں
میری وفاؤں کے تذکرے
آج بھی ہوائیں کرتی ہیں
میری وفاؤں کے تذکرے
آج بھی ساحل کی وہ ریت کرتی ہے
جس پر بیٹھ کر
میں نے تیرا نام لکھا تھا
جہاں پہروں بیٹھ کر
تیری راہ تکتا تھا
تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں
میری وفاؤں کے تذکرے
وہ پودے بھی کرتے ہیں
جن سے میں تیری خاطر
کُچھ پُھول اُدھار لاتا تھا
چمبیلی میر راہ تکتی ہے
گُلاب میری آہٹ سُننے کو بےتاب ہے
وہ جامن کا پیڑ
اب جامن نہیں دیتا
اگر میں بے وفا ہوتا
میں اکیلا ہی پریشان ہوتا
یوں درخت ، پُھول ، پودے
میرا ساتھ نہیں دیتے
ہوائیں میرا نام نہیں لیتیں
میری وفاؤں کے تذکرے
یوں سر عام نہیں ہوتے
چلو میں مان لیتا ہوں
میں بے وفا سہی
مگر تیری وفائیں کہاں ہیں
تیرے تذکرے نہیں ملتے
ہوائیں تیرا نام نہیں لیتیں
اُس ریت پہ تیرا نام نہیں باقی
اگر با وفاؤں کا یہ صلہ ہے
اور بے وفاؤں کا یہی مرتبہ
تو سُن میری رگ جاں
میں بے وفا ہی بھلا
مگر میرے تذکروں میں
اک باب یہ بھی رہے گا
" تم کہتی ہو بے وفا ہوں میں "

میرے بے خبر تُجھے کیا پتا


میرے خواب ميری کہانیاں
میرے بے خبر تُجھے کیا پتا
تيری آرزوں کے دوش پر
تيری کيفِيت کے جام میں
میں جو کِتنی صديوں سے قید ہوں
تيرے نقش میں تيرے نام میں
میرے زاِئچے میرے راستے
میرے ليکھ کی یہ نِشانِياں
تيری چاہ میں ہیں رکی ہوئی
کبھی آنسوں کی قِطار میں
کبھی پتھروں کے حِصار میں
کبھی دشتِ ہجر کی رات میں
کبھی بدنصيبی کی گھاٹ میں
کئی رنگ دھوپ سے جل گئے
کئی چاند شاخ سے ڈھل گئے
کئی تُن سُلگ کے پگھل گئے
تيری الفتوں کے قیام میں
تيرے درد کے در و بام میں
کوئی کب سے ثبتِ صليب ہے
تيری کائنات کی رات میں
تيرے اژدھام کی شام میں
تُجھے کیا خبر تُجھے کیا پتا
میرے خواب ميری کہانیاں
میرے بے خبر تُجھے کیا پتا

یہ جذبے ہیں بس


یہ کتابوں کے قصے
فسانوں کی باتیں
نگاہوں کی جھلمل
جدائی کی راتیں
محبت کی قسمیں
نبھانے کے وعدے
یہ دھوکا وفا کا
یہ جھوٹے ارادے
یہ باتیں کتابی
یہ نظمیں پرانی
نہ ان کی حقیقت
نہ ان کی کہانی
نہ لکھنا انھیں
نہ تم محفوظ کرنا
یہ جذبے ہیں بس
ان کو محسوس کرنا

Saturday, July 16, 2011

لوگ کہتے ہیں


لوگ کہتے ہیں
وہ مجھ سے مختلف سا ہے
مگر وہ جانتے نہیں
میں اُس سے رُوٹھ جاؤں تو
وہ مجھ سے رُوٹھ جاتا ہے

یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا


یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا
اجنبیّت کی پھیلی ہوئی دُھند میں
آنکھ بے نور ہے
کوئی چارہ نہیں کوئی درماں نہیں
ہجر کی حِدّتوں سے سلگتے ہوئے
دن بدلتے نہیں
منتظرجاگتی آنکھ کے طاق میں
خواب جلتے نہیں
ساحلِ ذہن پر سوچ کے بادباں
تھم کے چلتے نہیں
کب سے ہے روز و شب کی دریدہ قبا
چاک سِلتے نہیں
غم سے جُھلستی ہوئی شاخِ ایّام پر
پھول کِھلتے نہیں
بے یقینی کی راہوں پہ بچھڑے ہوئے
لوگ ملتے نہیں
جن کی نس نس میں ہے لذّتِ درد و غم
وہ بکھرتے نہیں
زخم لگتے ہیں بارش کے موسم میں جو
جلد بھرتے نہیں
یہ محبت بھی زخم ایسے موسم کا ہے
یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا
بھر بھی جائے اگر جسم کی لوح سے
داغ مٹتے نہیں
ایسے دل جو محبت سے سرشار ہوں
غم سے ڈرتے نہیں روز مرتے نہیں

شکریہ


جنھیں بوجھ لگتی ہے زندگی
سر بزم یُوں اُنھیں دیکھ کر
تیرے مُنہ چھُپانے کا شکریہ
جو زمانے بھر کا اُصول تھا
وہ اُصول تم نے نبھا دیا
یہی رِسم ٹھرے گی معتبر
مجھے بھول جانے کا شکریہ

ہماري آنکھوں


ہماري آنکھوں نے بھي تماشا عجب عجب انتخاب ديکھا
برائي ديکھي ، بھلائي ديکھي ، عذاب ديکھا ، ثواب ديکھ

نھ دل ھي ٹھرا ، نہ آنکھ جھپکي ، نہ چين پايا، نہ خواب آيا
خدا دکھائے نہ دشمنوں کو ، جو دوستي ميں عذاب ديکھ

نظر ميں ہے تيري کبريائي، سما گئي تيري خود نمائي
اگر چہ ديکھي بہت خدائي ، مگر نہ تيرا جواب ديکھ

پڑے ہوئے تھے ہزاروں پردے کليم ديکھوں تو جب بھي خوش تھے
ہم اس کي آنکھوں کے صدق جس نے وہ جلوہ يوں بے حجاب ديکھ

يہ دل تو اے عشق گھر ہے تيرا، جس کو تو نے بگاڑ ڈالا
مکاں سے تا لاديکھا ، تجھي کو خانہ خراب ديکھ

جو تجھ کو پايا تو کچھ نہ پايا، يہ خاکداں ہم نے خاک پايا
جو تجھ کو ديکھا تو کچھ نہ ديکھا ، تما م عالم خراب ديکھ

بت کو بت


بت کو بت اور خدا کو جو خدا کہتے ہيں
ہم بھي ديکھيں تو اسے ديکھ کے کيا کہتے ہيں

ہم تصور ميں بھي جو بار ذرا کہتے ہييں
سب ميں اڑ جاتي ہے ظالم اسے کيا کہتے ہیں

جو بھلے ہيں وہ بروں کو بھي بھلا کہتے ہيں
نہ برا سنتے ہيں اچھے نہ برا کہتے ہيں

وقت ملنے کا جو پوچھا تو کہا کہہ ديں گے
غير کا حال جو پوچھا تو کہا کہتے ہيں

نہيں ملتا کسي مضمون سے ہمارا مضمون
طرز اپني ہے جدا سب سے جدا کہتے ہيں

پہلے تو داغ کي تعريف ہوا کرتي تھي
اب خدا جانے وہ کيوں اس کو برا کہتے ہيں

غضب کيا


غضب کيا تيرے وعدے کا اعتبار کيا
تمام رات قيامت کا انتظار کي

کسي طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کيا
مري وفا نے مجھے خوب شرمسار کي

وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال انديش
انہوں نے وعدہ کيا اس نے اعتبار کي

نہ اس کے دل سے مٹايا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پريشاں مرا غبار کيا

تري نگاہ کے تصور ميں ہن نے اسے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھري کو ہم نے پيار کي

ہوا ہے کوئي مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شيوہ اختيار کي

نہ پوچھ دل کي حقيقت مگر يہ کہتے ہيں
وہ بے قرا رہے جس نے بے قرار کي

وہ بات کر جو کبھي آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کيا تو بڑا تو نے افتخار کي

Wednesday, July 13, 2011

فیصلہ


تمہارے غم کی ڈلی اُٹھا کر
زباں پہ رکھ لی ہے دیکھو میں نے
میں قطرہ قطرہ ہی جی رہا ہوں
پگھل پگھل کر گلے سے اُترے گا آخری قطرہ دَرد کا جب
میں سانس کی آخری گرہ کو بھی کھول دوں گا
کہ دَرد ہی دَرد کی مجھے تو
دوا ملی اپنی زندگی سے

گلزار

بھول جاؤ۔


بھول جاؤ کہ اپنے ماضی میں رکھا کیا ہے؟
یہی نا!
دو چار ملاقاتیں
ادھورے شکوے
ادھوری باتیں
اور کچھ اداس شامیں
چند ٹوٹی ہوئی امنگیں
فون کی بے ربط کالیں
اور کیا ہے اپنے ماضی میں؟
بھول جاؤ۔

تم میرے ہو کر نہیں دیتے


جتنی دُعائیں آتی تھیں
سب مانگ لی ہم نے
جتنے وظیفے یاد تھے سارے
کر بیٹھے ہیں
کئی طرح سے جی دیکھا ہے
کئی طرح سے مر بیٹھے ہیں
لیکن جاناں
کسی بھی صورت
تم میرے ہو کر نہیں دیتے


محبت کے موسم


چاند کبھی تو تاروں کی اس بِھيڑ سے نکلے
اور مری کھڑکی ميں آئے
بالکل تنہا اور اکيلا
ميں اس کو بانہوں ميں بھر لوں
ايک ہی سانس سب کی سب وہ باتيں کر لوں
جو ميرے تالُو سے چمٹی
دل ميں سمٹی رہتی ہيں
سب کچھ ايسے ہی ہو جائے جب ہے ناں
چاند مری کھڑکی ميں آئے، تب ہے ناں

لِکھنا تھا،۔۔۔


مجھے جو کچھ بھی لِکھنا تھا
ابھی وہ لِکھ نہیں پایا
میری تحریر کی زد میں
ابھی تو کچھ نہیں آیا
ابھی وہ درد لکھنا ہے
جو آنسو خُون کے لائے
ابھی رسوائی لِکھنی ہے
جو ہمراہ سنگ بھی لائے
ابھی وہ نیند لِکھنی ہے
جو سُولی پر بھی نہ آئے
ابھی وہ شام لِکھنی ہے
جسے کوئی چُرا لائے
ابھی وہ شوخی لِکھنی ہے
گُلابی گال کر جائے
ابھی وہ پَل بھی لِکھنے ہیں
جو تیرے سنگ تھے بِیتے
ابھی وہ لوگ لِکھنے ہیں
جو مجھ کو کھو کے پچھتائے
مجھے وہ سب ہی لِکھنا ہے
جو تم سے کہہ نہیں پایا

آخری گفتگو


یہ تصویریں ہیں
خط ہیں
اور کچھ پُرزے ہیں
جن پر تُم مجھے پیغام لکھتی تھیں
انہیں محفوظ کر لو
ہاں مگر افسوس
ٹیلی فون پر جو گفتگو
تم مجھ سے کرتی تھیں
اُنہیں میں تم کو واپس کر نہیں سکتا
جو میری دسترس میں تھا
تمہارے سامنے ہے سب
جو باقی ہے
صدا ہے اب ۔۔۔

Friday, July 8, 2011

معیار


خود کو تیرے معیار سے گھٹ کر نہیں دیکھا
جو چھوڑ گیا، اُس کو پلٹ کر نہیں دیکھا

میری طرح، تُو نے شبِ ہجراں نہیں کاٹی
میری طرح، اس تیغ پہ کٹ کر نہیں دیکھا

تُو دشنہِ نفرت ہی کو لہراتا رہا ہے
تُو نے کبھی دشمن سے لپٹ کر نہیں دیکھا

تھے کوچہِ جاناں سے پرے بھی کئی منظر
دل نے کبھی اس راہ سے ہٹ کر نہیں دیکھا

اب یاد نہیں مجھ کو فراز اپنا بھی پیکر
جس روز سےبکھرا ہوں سِمٹ کر نہیں دیکھا

احمد فراز

دل کی حالتیں


یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی

یہ قرب کیا ہے کہ تو سامنے ہے اور ہمیں
شمار ابھی سے جدائی کی ساعتیں کرنی

کوئی خدا ہو کے پتھر جسے بھی ہم چاہیں
تمام عمر اسی کی عبادتیں کرنی

سب اپنے اپنے قرینے سے منتظر اس کے
کسی کو شکر کسی کو شکائتیں کرنی

ہم اپنے دل سے ہیں مجبور اور لوگوں کو
ذرا سی بات پہ برپا قیامتیں کرنی

ملیں جب ان سے تو مبہم سی گفتگو کرنا
پھر اپنے آپ سے سو سو وضاحتیں کرنی

یہ لوگ کیسے مگر دشمنی نباہتے ہیں
ہمیں تو راس نہ آئیں محبتیں کرنی

کبھی فراز نئے موسموں میں رو دینا
کبھی تلاش پرانی رقابتیں کرنی

وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو


وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں توکیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں توکیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاؤں پر
مسکرائیں توکیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں توکیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں توکیا تماشا ہو

دوبارہ چاہ کر بھی میں محبت کرنہیں پایا۔


ستمبر کے مہینہ کا وہ شاید آخری دن تھا
برس گزرے کئی۔۔۔۔۔
میں نے "محبت" لفظ لکھا تھا
کسی کاغذ کے ٹکڑے پر!
اچانک یاد آیا ہے
برس گزرے کئی۔۔۔
مجھھ کو کسی سے بات کرنا تھی
اُسے کہنا تھا
جانِ جاں! مجھے تم سے محبت ہے
مگر میں کہہ نہیں پایا
وہ کاغذ آج تک لپٹا پڑا ہے دھول میں لیکن
کسی کو دے نہیں پایا
دوبارہ چاہ کر بھی میں محبت کرنہیں پایا۔۔۔۔

تمہیں یاد ہے؟


تمہیں یاد ہے؟
میرے اشک اپنی پوروں پہ رکھتے ھوئے
تم نے اک دن کہا تھا
"محبت تو اک خواب ھے
جو مسلسل روانی سے تھکتا نہیں ہے
تھکاتا نہیں ہے
جو دیکھو تو راہیں طوالت زدہ ہیں
جو سوچو تو کچھھ بھی طوالت نہیں ہے
جو دیکھو تو مشکل سفر سامنے ہے
جو سمجھو تو کچھھ بھی مسافت نہیں ہے
ہماری سبھی مشکلیں میری ھوں گی
تمہیں خوش نہ رہنےکی عادت نہیں ہے
میں رو دوں تو رو دوں مگر یاد رکھنا
تمہیں اب سے اس کی اجازت نہیں ہے"
مگر یہ حقیقت کہاں تم نے جانی
سفر کی تو اک شرط تھی ہمرہی بھی
تمہیں زیست سے اس قدر جلد اٹھایا گیا تھا
کہ راہیں بھی اپنی طوالت کو لے کر
میری طرح گُم صم کھڑی رہ گئی تھیں
مجھے یاد ہے جو بھی تم نے کہا تھا
مگر آج اچانک میں تھک سا گیا ھوں
یہ درد اور سہنے کی ہمت نہیں ہے
میرے اشک تم نے بہائے ہمیشہ
مجھے اب بھی اس کی اجازت نہیں ہے؟؟؟

میرے اشک اپنی پوروں پہ رکھتے ھوئے
تم نے اک دن کہا تھا
"محبت تو اک خواب ھے
جو مسلسل روانی سے تھکتا نہیں ہے
تھکاتا نہیں ہے
جو دیکھو تو راہیں طوالت زدہ ہیں
جو سوچو تو کچھھ بھی طوالت نہیں ہے
جو دیکھو تو مشکل سفر سامنے ہے
جو سمجھو تو کچھھ بھی مسافت نہیں ہے
ہماری سبھی مشکلیں میری ھوں گی
تمہیں خوش نہ رہنےکی عادت نہیں ہے
میں رو دوں تو رو دوں مگر یاد رکھنا
تمہیں اب سے اس کی اجازت نہیں ہے"
مگر یہ حقیقت کہاں تم نے جانی
سفر کی تو اک شرط تھی ہمرہی بھی
تمہیں زیست سے اس قدر جلد اٹھایا گیا تھا
کہ راہیں بھی اپنی طوالت کو لے کر
میری طرح گُم صم کھڑی رہ گئی تھیں
مجھے یاد ہے جو بھی تم نے کہا تھا
مگر آج اچانک میں تھک سا گیا ھوں
یہ درد اور سہنے کی ہمت نہیں ہے
میرے اشک تم نے بہائے ہمیشہ
مجھے اب بھی اس کی اجازت نہیں ہے؟؟؟

.. ایک دن آئے گا


ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا
تم جہاں میرے لئے سیپیاں چنتی ہوگی
وہ کسی اور ہی دنیا کا کنارہ ہوگا
زندگ! اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارا ہوگا
یہ اچانک جو اجالا سا ہوا جاتا ہے
دل نے چپکے سے ترا نام پکارا ہوگا
عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے
اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارہ ہوگا
یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور
اس نے دریا میں کہیں پاؤں اُتارا ہوگا
کون روتا ہے یہاں رات کے سناتوں میں
میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا
مجھ کو معلوم ہے جونہی میں قدم رکھوں گا
زندگی تیرا کوئی اور کنارہ ہوگا
جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی
اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا‎

Thursday, July 7, 2011

گمشدہ


میری آنکھیں مسلسل بہہ رہی ہیں
میرا دل جیسے چھلنی ہو گیا ہے
میری ہمت کچھ ایسے کم ہوئی ہے
کہ ہر امید جیسے کھو گئی ہے
وہ سارے راستے تھا جن پہ چلنا
وہ جن پہ تھا ہر اک منزل کو ملنا
وہ جن پہ تھا سبھی پھولوں پہ کھلنا
ًدفعتاَ سارے بنجر ہو گئے ہیں
میری تدبیریں الٹی ہو گئی ہیں
قدم جیسے شکستہ ہو گئے ہیں
فضا میں اب کچھ ایسا حبس سا ہے
کہ میرا سانس لینا بھی سزا ہے
میرے اطراف میں وہ تیرگی ہے
کہ سب کچھ آنکھ سے اوجھل ہواہے
نہیں یارو پرانا روگ کوئی
ابھی پچھلے ہی پل کا واقعہ ہے
میری قسمت کا تارا کھو گیا ہے۔۔۔۔۔

ہمارے ہاتھ خالی ہیں


ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔۔۔
مقدر سے الجھتی ان گنت ان میں لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے۔۔۔
ہماری زندگانی ہے۔۔۔
مگر پھر بھی یہ لگتا ہےیہمارے ہاتھ خالی ہیں۔۔۔۔
کہیں ماضی نمایاں ہے، کہیں اسباب دکھتے ہیں
جو ہم اب جھیلتے ہیں وہ سبھی حالات دکھتے ہیں۔۔۔
جو پل اب تک نہیں آئے، وہ سب ان میں سمائے ہیں
مگر سب کچھ پوشیدہ ہے سبھی ا دوار مبہم ہیں
ہمارے آنے والے پل ہمارے ہاتھ میں گم ہیں
مگر پھر بھی یہ لگتا ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔۔۔۔
میں پہروں اپنے ہاتھوں کی لکیریں تکتی رہتی ہوں
مگر اپنی ہتھیلی پہ نہیں دکھتی مجھے ہرگز
وہ اک ساعت جو خزاں رت کو بہاروں میں بدلتی ہو،
وہ اک لمحہ جو صدیوں کی تھکن کو مات دے جائے،
وہ اک رستہ جو پل بھر میں منزل کو پہنچ جائے۔۔۔۔
میری تکمیل کر جائے۔۔۔۔
میں پہروں تکتی رہتی ہوں الجھتی ان لکیروں کو
مگر اب تک نہیں ملتی
وہ اک ساعت کہ جس پہ وصل کا میغام لکھا ہو
وہ اک ریکھا جس پہ تیرا میرا نام لکھا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواہش


کبھی وقت تم کو ملے اگر
کہیں دور تم کو میں لے چلوں
جہاں دنیا والے کہیں نہ ہوں
جہاں بے رخی کہ گلے نہ ہوں
جہاں گل وفا کہ ہوں چار سو
جہاں زخم اپنے ہرے نہ ہوں
تیرا ہاتھ ہو میرے ہاتھ میں
کسی خوبصورت سی رات میں
ہو گنگناتی ہوا وہاں
اور چاندنی بھی ہو ساتھ میں
تیرے روبرو میں کروں بیاں
کبھی اپنے دل کی بھی آرزو
کبھی میں کہوں کبھی تم کہو
کبھی ان کہی سی ہو گفتگو
کبھی تم سے پھر میں کروں بیاں
شب ِ ہجر کی بے چینیاں
کبھی تم بھی مجھ کہ بتاؤ پھر
کہ میرے بنا ہو رہے کہاں
ہو چاند تاروں کی روشنی
ہو لمحہ لمحہ میں بے خودی
مجھے دنیا والوں سے چھین کر
کبھی دل میں اپنے بٹھاؤ تم
کبھی ساری رسموں کو توڑ کر
میرے اتنے پاس چلے آؤ تم
کبھی سارے رستوں کو چھوڑ کر
کوئی راستہ تیرے سنگ چلوں
کبھی واقت تم کو ملے اگر۔۔۔۔
کہیں دور تم کو میں لے چلوں۔۔۔۔۔

میرے ہمسفر۔۔۔!


یہ بھی کر گزار میرے ہمسفر
میرے سارے سپنوں کو توڑ کر
میری راہگزر کو اجاڑ دے
یہ جو مان ہے اسے توڑ کر
میرے دوست مجھ کو فریب دے
مجھے نفرتوں کا عذاب دے
مجھے دے تو اتنی اذیتیں
میری ذات کو یوں بگاڑ دے
میرے قلب کو دے نیا زخم
میری روح میں نشتر اتار دے
مجھے خواب دے کسی ابر کا
اور کسی قبر میں اتار دے
مجھے ایسے رستوں پہ لے کے چل
کہ قدم بڑھاؤں تو گر پڑوں
میرے زخم زخم وجود میں
تو اک اور تیر اتار دے
یہ بھی کر گزر میرے ہمسفر!
کچھ اسطرح سے ستم بڑھا
کہ میری زندگی ہی مجھے مار دے۔۔۔۔۔

مجھے منز لوں کا شعو ر تھا


مجھے منز لوں کا شعو ر تھا مجھے راستوں نے تھکا دیا
کبھی جن پہ مجھ کو یقین تھا ا نہی ساتھیوں نے د غا د یا
میرا ساتھ پا نے کی آرزو کبھی کتنی تم کو عزیز تھی
مجھے تم پہ کتنا غرور تھا سبھی خاک میں وہ ملا دیا
کبھی اس طرف جو گزر ہوا میری چشم تر کو بھی دیکھنا
تیری بدگما نی کی آنچ نے مجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا
نئے خواب بن کے نگاہ میں میری دسترس سے نکل گیا
بنی اس کے پاؤں کی دھول میں مجھے یہ وفا کا صلہ دیا
میں تیری ہی ذات کا عکس تھی تیرا عشق تیرا نصیب تھی
میں تو منزلوں کا نشان تھی مجھے بے نشان بنا دیا
میں کیوں سر سے پا تک بدل گئی کہ میرا وجود کہاں کھو گیا
تیری عاشقی نے میرے مہرباں! مجھے کیا سے کیا ہے بنا دیا

پلٹ جاؤ۔۔۔۔۔


واپسی کی تمام راہیں
کھلی ہیں اب بھی تمہاری خاطر
یہی ہے بہتر تمہارے حق میں
پلٹ ہی جاؤ۔۔۔۔
کہ راہیں، میری اجاڑ راہیں
کہ شامیں ،میری ویران شامیں
کہ چاروں جانب ہے گھپ اندھیرہ
نہیں کہیں پہ چمکتا سورج
نہ ہے سویرا
ہے چاروں جانب فصیل ایسی
کہ جس کو عبور کرنا
تمہارے بس میں نہ اپنے بس میں
پلٹ ہی جاؤ۔۔۔۔
کہ میری راہوں میں منز لوں کا نشاں نہیں ھے
فقط سفر ھے۔۔۔۔۔
کٹھن سفر ھے۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدہ کلثوم زہرہ

یہ جو چار دن کی ھے زندگی


یہ جو چار دن کی ھے زندگی
، اسے چاہتوں میں گزار دو
بہت بے کلی کی یہ شام ھے
، اسے چاندنی سے نکھار دو
یہ جو اشک آنکھوں میں ھیں میری
، فقط تیری یادوں میں ہیں بہے
کہ ختم بھی کر دو یہ فاصلہ
، میری زندگی کو قرار دو
مجھے راس آ نہ سکی کبھی
، تیری جستجو تیری عاشقی
تیری آس میں ہوں بکھر گئی
، میری ذات کو تم سنوار دو
مجھے سب نے تنہا ہے کر دیا
، تیری آرزو کی ہے یہ سزا
مجھے تھام لو میرے ہمسفر
، مجھے چاہتوں کا خمار دو
ہے دشت ہجر کا یہ سفر
، ہے بڑی تپش بڑی دھوپ ہے
ہو ادھر بھی نظرکرم ذرا
، کبھی چند گھڑیاں ادھار دہ
مجھے زندگی نے تھکا دیا
، سبھی دوستوں نے دغا دیا
ففط تم پہ اب مجھے مان ہے
، تمہی مجھ کو چین و قرار دو
مجھے آرزو یہ رہی سدا
، کہ بنوں سبھی کی درد آشنا
میرے درد آشنا ھو تمہی صنم
، میری خار کو تم بہار دو

سیدہ کلثوم زہرہ

اسے خود سے محبت تھی۔۔۔۔۔۔


غلط فہمی تھی وہ میری
کسی سے بھی محبت تھی نہیں اس کو
وہ اپنی ذات سے خود عشق میں مصروف تھا اتنا
اسے اطراف میں پھیلی محبت ڈھونگ لگتی تھی
وہ بس اپنی ہی خاطر زندگی کو جینا چاہتا تھا
بڑھایا ہاتھ جو میری طرف اس نے
تو میں محسوس کر بیٹھی۔۔۔
”اسے مجھ سے محبت ہے۔۔۔۔“
مگر تب بھی حقیقت میں کہیں ایسا نہیں تھا کچھ
فقط یہ ہی حقیقت تھی
وہ میری ذات میں اپنی خوشی کی جستجو میں تھا
کہ اس نے آنکھ میں میری دھنک سے رنگ دیکھے تھے
کہ اس کو لمس میں میرے مہکتے پھول ملتے تھے
کہ اس کی ہر خوشی ہر مسکراہٹ پر، جو اپنی جان دے دیتی
وہ فقط میری ہی ہستی تھی۔۔۔۔
”اسے کوخود سے محبت تھی۔۔۔“
سو میری ان نگاہوں میں وہ تکتا تھا شہبہ اپنی
میں اس کی اکک ذرا سی ضد کو اس کا عشق سمجھی تھی۔۔۔۔
نہیں تھا عشق وہ اسکا
”فقط اک شائیبہ تھا وہ محبت کا۔۔۔۔۔۔“

سیدہ کلثوم زہرہ

Sunday, July 3, 2011

محمد ابراہيم ذوق .......معلوم جو ہوتا


معلوم جو ھوتا ھميں انجام محبت
ليتے نہ کبھي بھول کے ھم نام محبت

ھيں داغ محبت درم و دام محبت
مثردھ روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق

ھر روز اڑا ديتا ھے وھ کرکے تصديق
دو چار اسير قفس دام محبت

مانند کباب آگے پہ گرتے ھيں ھميشہ
دل سوز ترے بستر آرام محبت

کاسہ ميں فلک کے نہ رھے نام کو زھر آب
دہر کہينچے اگر تشنہ لب جام محبت

کي جس سے رھ و سم محبت اسے مارا
پيغام قضا ھے ترا پيغام محبت

نے زھد سے ھے کام نہ زاھد سے کہ ھم تو
ھيں بادھ کش عشق و مئے جام محبت

ايمان کو گرو رکہ کے نہ يوں کفر کو لے مول
کافر نہو گرويدھ اسلام محبت

کہتي تہي وفا کناں نعش پہ مري
سونپا کسے تو نے مجھے ناکام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کي سناں کو
چڑھ سر کے بل سے زينے پہ تا بام محبت

احسن دانش ......نظر فريب


نظر فريب قضا کھا گئي تو کيا ہوگا
حيات مو تسے ٹکرا گئي تو کيا ہوگا

بزعم ہوش تجلي کي جستجو بے سود
جنوں کي زد پہ خرو آگئي تو کيا ہوگا

نئي سحر کے بہت لوگ منتظر ہيں مگر
نئي سحر بھي جو کجلا گئي تو کيا ہوگا

نہ رہنمائوں کي مجلس ميں لے چلو مجھ کو
ميں بے ادب ہوں ہنسي آگئي تو کيا ہوگا

غم حيات سے بيشک ہے خود کشي آساں
مگر جو موت بھي شرما گئي تو کيا ہوگا

امير مينائي...... وصل ھو


وصل ھو جائے يہيں حشر ميں کيا رکہا ھے
آج کي بات کو کيوں پہ اٹہا رکہا ھے

محتسب پوچھ نہ تو شيشے ميں کيا رکہا ھے
پارسائي کا لہو اس ميں بہرا رکہا ھے

کہتے ھيں آئے جواني تو يہ چوري نکلے
ميرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکہا ھے

ياں گہيرے ھوئے ھے مجھ کو ہاں ، کچھ کچھ
آسرا تيري لگاوٹ نے لگا رکہا ھے

اس تغافل میں بھي سرگرم ستم وھ آنکہيں
آپ تو سوتے ھيں فتنوں کو جگا رکہا ھے

آدمي زاد ھيں دنيا کے حسيں ،ليکن امير
يار لوگوں نے پري زادبنا رکہا ھے

امير مينائي.... يہ تو ميں


يہ تو ميں کيونکر کہوں تيرے خريداروں ميں ھوں
تو سراپا ناز ھے ميں ناز برداروں ميں ھوں

وصل کيسا تيرے ناديدہخريداروں ميں ھوں
واہ رے قسمت کہ اس پر بھي گناہ گاروں ميں ھوں

ناتواني سے ھے طاقت ناز اٹہانے کي کہاں
کہہ سکوں گ کيونکر کہ تيرے ناز برداروں ميں ھوں

ھائے رے غفلت نہيں ھے آج تک اتني خبر
کون ھے مطلوب ميں کس کے طلب گاروں ميں ھوں

دل جگر دونوں کي لاشيں ھجر ميں ھيں سامنے
ميں کبھي اس کے کبھي اس کے عزداروں ميں ھوں

وقت آرائش پہن کر طوق بولا وھ حسين
اب وھ آزادي کہاں ھے ميں بھي فرفتاروں ميں ھوں

آچکا تھا رحم اس کو سن کے ميري بے کسي
درد ظالم بول اٹھا ميں اس کے غم خواروں ميں ھوں

پھول ميں پھولوں ميں ھوں، کانٹا کنٹوں ميں امير
يار ميں ياروں ميں ھوں، عيار ، عياروں ميں ھوں

چلے تو کٹ


چلے تو کٹ ہي جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہيں مگر آہستہ آہستہ

ابھي تاروں سے کھيلون چاند کي کرنوں سے اٹھلائو
ملے گي اس کے چہرے کي سحر آہستہ آہستہ

دريچوں کو ديکھو، چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھيں گے پردہ بائے بام و در آہستہ آہستہ

زمانے بھر کي کيفيت سمٹ آئے گي ساغر ميں
پيو ان انکھڑيوں کے نام پر آہستہ آہستہ

يونہي اک روز اپنے دل کا قصہ بھي سنا دينا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ