اُس کی قُربت میں بِیتے سب لمحے
میری یادوں کا ایک سرمایہ
خُوشبوؤں سے بھرا بدن اُس کا
قابلِ دید بانکپن اُس کا
شعلہ افروز حُسن تھا اُس کا
دِلکشی کا وہ اِک نمونہ تھی
مجھ سے جب ہمکلام ہوتی تھی
خواہشوں کے چمن میں ہر جانب
چاہتوں کے گُلاب کِھلتے تھے
اُس کی قُربت میں ایسے لگتا تھا
اِک پری آسماں سے اُتری ہو
جب کبھی میں یہ پُوچھتا اُس سے
ساتھ میرے چلو گی تم کب تک
مجھ سے قسمیں اُٹھا کے کہتی تھی
تُو اگر مجھ سے دُور ہو جائے
ایک پل بھی نہ جی سکوں گی میں
آج وہ جب جُدا ہوئی مجھ سے
اُس نے تو الوداع بھی نہ کہا
جیسے صدیوں سے اجنبی تھے ہم
آصف شفیع