اے غزال شب
تیری پیاس کیسے بُجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب جو میری جاں میں ہے؟
وہ سراب ساحر خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں
فریب رہرو سادہ ہے
وہ سراب زادہ، سراب گر، کہ ہزار صورتِ نو بہ نو
میں قدم قدم پہ ستادہ ہے
وہ جو غالب و ہمہ گیر دشتِ گماں میں ہے
میرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا
میرے ہست و بُود پہ چھا گیا
اے غزالِ شب
اسی فتنہ کار سے چُھپ گئے
میرے دیر و زُود بھی خواب میں
میرے نزد و دُور حجاب میں
وہ حجاب کیسے اُٹھاؤں میں جو کشیدہ قالبِ دل میں ہے
کہ میں دیکھ پاؤں درونِ جاں
جہاں خوف و غم کا نشاں نہیں
جہاں یہ سرابِ رواں نہیں
اے غزالِ شب
ن م راشد