جب وہ کھلِتے گلاب جیسا تھا
اُسے کی پلکوں سے نیند چھنتی تھی
اُس کا لہجہ شراب جیسا تھا
اُس کی زلفوں سے بھیگتی تھی گھٹا
......اُس کا رُخ ماہتاب جیسا تھا
لوگ پڑھتے تھے خدوخال اُس کے
وہ ادب کی کتاب جیسا تھا
بولتا تھا زباں خوشبو کی
لوگ سُنتے تھے دھڑکنوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
ساری آنکھیں تھیں آئینے اُس کے
سارے چہروں میں انتخاب تھا وہ
سب سے گُھل مل کے اجنبی رہنا
ایک دریا نما سراب تھا وہ
خواب یہ ہے وہ حقیقت تھا
یہ حقیقت ہے، کوئی خواب تھا وہ
دل کی دھرتی پہ آسماں کی طرح
صورت ِسایہ و سحاب تھا وہ
اپنی نیندیں اُس کی نذر ہوئیں
میں نے پایا تھا رتجگوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
جب وہ ہنس ہنس کے بات کرتا تھا
دل کے خیمے میں رات کرتا تھا
رنگ پڑتے تھے آنچلوں میں اُسے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے
یہ مگر دیر کی کہانی ہے
یہ مگر دور کا فسانہ ہے
اُس کے، میرے ملاپ میں حائل
اب تو صدیوں بھرا زمانہ ہے
اب تو یوں ہے کہ حال اپنا بھی
دشت ِہجراں کی شام جیسا ہے
کیا خبر، اِن دنوں وہ کیسا ہے
میں نے دیکھا تھا اُن دنوں میں اُسے