یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا
اجنبیّت کی پھیلی ہوئی دُھند میں
آنکھ بے نور ہے
کوئی چارہ نہیں کوئی درماں نہیں
ہجر کی حِدّتوں سے سلگتے ہوئے
دن بدلتے نہیں
منتظرجاگتی آنکھ کے طاق میں
خواب جلتے نہیں
ساحلِ ذہن پر سوچ کے بادباں
تھم کے چلتے نہیں
کب سے ہے روز و شب کی دریدہ قبا
چاک سِلتے نہیں
غم سے جُھلستی ہوئی شاخِ ایّام پر
پھول کِھلتے نہیں
بے یقینی کی راہوں پہ بچھڑے ہوئے
لوگ ملتے نہیں
جن کی نس نس میں ہے لذّتِ درد و غم
وہ بکھرتے نہیں
زخم لگتے ہیں بارش کے موسم میں جو
جلد بھرتے نہیں
یہ محبت بھی زخم ایسے موسم کا ہے
یہ محبت بھی ہے گھاؤ برسات کا
بھر بھی جائے اگر جسم کی لوح سے
داغ مٹتے نہیں
ایسے دل جو محبت سے سرشار ہوں
غم سے ڈرتے نہیں روز مرتے نہیں