چلے تو کٹ ہي جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہم اس کے پاس جاتے ہيں مگر آہستہ آہستہ
ابھي تاروں سے کھيلون چاند کي کرنوں سے اٹھلائو
ملے گي اس کے چہرے کي سحر آہستہ آہستہ
دريچوں کو ديکھو، چلمنوں کے راز تو سمجھو
اٹھيں گے پردہ بائے بام و در آہستہ آہستہ
زمانے بھر کي کيفيت سمٹ آئے گي ساغر ميں
پيو ان انکھڑيوں کے نام پر آہستہ آہستہ
يونہي اک روز اپنے دل کا قصہ بھي سنا دينا
خطاب آہستہ آہستہ نظر آہستہ آہستہ